ہندو اور مسلمان کے لباس میں دوقومی نظریہ موجود تھا،تقسیم ہند سے قبل ہندو دکاندار مسلمان کو سبزی دیتا تورقم ہاتھ میں لینے کی بجائے برتن آگے کردیتا

مصنف
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
یہ بھی پڑھیں: کراچی بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا
ہندو مسلم جدا قومیں
ہندوستان کے ہندو اور مسلمان کے لباس میں بڑا فرق تھا۔ ہندو مرد دھوتی یا خاص قسم کی شلوار پہنتے؛ سر پر خاص گول قسم کی ٹوپی، ماتھے پر سرخ تلک کا نشان، سر منڈا ہوا مگر سر کے درمیان چند لمبے بال، جسے ہم بودی کہتے ہیں، وہ رکھتے تھے۔ عورتوں کا خاص لباس ریشمی اور پتلا (باریک) ہوتا تھا۔ مسلمان غریب تھے، ان کا لباس موٹا کپڑا ہوتا تھا۔ ویسے ہر علاقے کا لباس علیٰحدہ موسم کے اعتبار سے تھا۔ عورتوں کے سر کے بال لمبے ہوتے تھے اور وہ خاص ترتیب سے رکھتی تھیں۔ خوشحال گھرانے کی مسلمان عورتیں سفید برقعہ اوڑھتی تھیں جبکہ عام عورتیں رنگدار بڑی چادر، جسے شال کہتے ہیں، اوڑھتی تھیں۔ مسلمان عورت ہر لحاظ سے اپنے آپ کو ڈھانپتی تھی۔ مسلمان عورتیں مہندی اپنے ہاتھوں پر لگاتی تھیں جو ہندو عورتوں سے مختلف تھیں۔ اچھے مسلمان گھروں کے دروازے پر چک یا بوری کا پردہ ہوتا تھا جو ظاہر کرتا تھا کہ یہ مسلمان کا گھر ہے۔ مسلمان کے چہرے پر داڑھی ہوتی تھی، لہٰذا ہندو اور مسلمان کے لباس میں دو قومی نظریہ موجود تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں 25 سالہ نوجوان بیڈ منٹن کھیلتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے جان کی بازی ہار گیا
خوراک اور رسم و رواج
کھانا جدا، کھانے کے طریقے بھی جدا تھے۔ مسلمانوں کی خوراک میں گائے، بھینس، بکرے کا گوشت شامل ہوتا تھا اور خاص قسم کا شوربہ ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی گندم یا مکئی کی روٹی تندور پر پکتی تھی اور وہ بڑی ہوتی تھی۔ اکثر مسلمان ساگ، چٹنی، لسی کے ساتھ روٹی کھاتے تھے۔ پلاؤ میں بھی گوشت شامل ہوتا تھا۔ مسلمان عید قربانی کے موقع پر گائے کی قربانی دیتے تھے جبکہ ہندو گائے کو پوجتے تھے۔ کئی علاقوں میں گائے کی قربانی یا ذبیح کے موقع پر ہندو مسلمان جھگڑے ہوتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی ہتھیاروں نے میدان جنگ میں ٹیسٹ پاس کر لیا، بھارت نہ مانا لیکن فرانسیسی میڈیا نے مان لیا
آداب اور عبادت
ہندو مسلمان کا لباس، ظاہری شکل، چلنا پھرتا، بیٹھنا جدا تھا۔ مسلمانوں کے بیٹھنے کا طریقہ بھی جدا تھا۔ ملاقات کے وقت ہندو ہاتھ جوڑ کر مہاراج کہہ کر، جھک کر سلام کرتا ہے جبکہ مسلمان اسلام علیکم کہتے ہیں۔ دونوں کے عبادت کے طریقے جدا ہیں؛ ہندو کی عبادت گاہ کو مندر کہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں۔ مندر کی بناوٹ، ساخت، زیبائش، چھتیں جدا ہیں۔ ہندو پتھر کے بت تیار کرتے ہیں اور انھیں غسل یعنی اشنان دیا جاتا ہے۔ کپڑے خاص پہنے جاتے ہیں اور اگربتیاں جلائی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ضلع کرم میں تمام بنکرز کے خاتمے اور اسلحہ جمع کرنے کا فیصلہ
زندگی کے دیگر پہلو
مسلمان ہندو کے برتن میں نہ تو کھا سکتا تھا نہ پانی، دودھ، چائے، لسی پی سکتا تھا۔ ہندو مسلمان کے برتن سے خوراک نہیں لے سکتا تھا۔ تقسیم ہند سے قبل کٹر ہندو سبزی فروخت کرنے والے ہمارے ہاتھوں سے اپنی سبزی کی قیمت نہیں لیتے تھے۔ ہندو دکاندار کی دکان پر سبزی خریدنے جاتے، وہ دور سے ہمیں سبزی دیتا اور رقم ہاتھ میں لینے کی بجائے برتن آگے کردیتا، ہم رقم اس برتن میں ڈالتے۔ ہندو کے نل سے مسلمان پانی نہیں لے سکتا تھا اور ہر گلی میں کمیٹی کی طرف سے پینے کے پانی کے نل لگے ہوئے تھے۔ مسلمان اپنے برتن لائن میں رکھتے اور باری باری پانی بھرتے تھے۔ ہندو کے نہانے کے طریقے مسلمان سے مختلف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کے شہریوں کے لیے شادی کی تقریبات پر بھی ٹیکس لگادیا گیا
موت کی رسم
ہندو کے مکانات پکے ہوتے تھے اور چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے تھے۔ ہندو پتھروں اور اینٹوں سے عمارتیں کھڑی کرتے جبکہ مسلمانوں کے کچے مکانات تھے۔ ہندو کی موت کی رسم جدا ہوتی تھی۔ اگر کوئی بوڑھا ہندو آدمی مر جاتا تو تمام گھر کی اشیاء کو الٹا کر دیتے۔ ہر ہندو مرد اور عورت کو مرنے کے بعد چتا میں جلایا جاتا ہے اور لکڑیوں میں آگ قریبی رشتہ دار لگاتے ہیں۔ جب میت جل کر راکھ ہو جاتی ہے تو اس راکھ کو گنگا جمنی میں بہایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں قید 4 ہزار پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک
اسلام کی تعلیمات
میت کے جلانے کے بعد جب واپس گھر آتے، کرشنا سچے، رام سچے کہتے تھے۔ ہندو مذہب میں ایک نرالی منطق ہے کہ مرنے کے بعد جلانے کے بعد دوبارہ کسی دوسرے شخص میں اس کی روح آجاتی ہے۔ عجیب و غریب قسم کے خیالات اور اعتقادات ہیں۔ موت کے بعد مسلمان کو قبرستان میں لے جانے سے قبل غسل دیا جاتا ہے۔ اسے عزت کے ساتھ کفن پہنایا جاتا ہے، ادویات بھی لگائی جاتی ہیں اور قبر میں دفن کیا جاتا ہے۔ اسلام صفائی کا مذہب ہے اور اس کے ہر اصول میں ماحول کی حفاظت ہے تاکہ کسی دوسرے شخص کو تکلیف نہ ہو۔
خلاصہ
یہ ساری چیزیں ہم نے تقسیم ہند سے قبل دیکھ رکھی ہیں۔ ہمارا گھر ہندو محلہ میں تھا۔ ہمارا سکول سناتن دھرم ہائی سکول تھا۔ 1987ء میں مدارس کے ہسپتال گیا تو ایک دروازے کے ساتھ ایک پتھر کا بت سجایا ہوا تھا۔ میں نے سٹاف نرس سے پوچھا، "یہ کیا ہے؟" اس نے جواب دیا، "گنیش"۔ میں نے پوچھا، "وہ کیا ہے؟" جواب دیا، "ہمارا خدا ہے"۔ گویا ہم آزادی وطن سے پہلے ہی دو قومی نظریہ سے واقف تھے۔
کتاب ’’مسلم لیگ اور تحریک پاکستان سے اقتباس‘‘
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں