30 October 1947 کو یونیورسٹی گراﺅنڈ لاہور میں قائداعظمؒ کا فرمان: ’’کشمیر میں دشمن کامیابی حاصل نہیں کرپائے گا، دنیا جانتی ہے ہم سچائی پر ہیں‘‘

مصنف
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کے سیاسی کردار کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کی بڑی بہن روبینہ خان کا بیان آ گیا
تقسیم ہند اور کشمیر
تقسیم ہند پلان کے تحت 2 جون 1947ء کو برٹش گورنمنٹ نے اپنے فیصلہ کی تجویز یوں بیان کی کہ اس سال برطانوی حکومت نے فیصلہ کرلیاکہ انڈیا ایک یا دو آزاد ڈومین میں تقسیم کردیا جائے گا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن وائسرائے ہند نے نئی دہلی میں انڈین لیڈرز کے ساتھ وائسرائے ہاﺅس میں صبح 10 بجے ملاقات رکھی۔
ان لیڈروں میں پنڈت جواہر لعل نہرو سب سے پہلے آئے تاکہ وہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ نجی ملاقات کر کے اپنی مرضی کا اعلان کروائیں۔ آدھ گھنٹہ کے بعد بیرسٹر محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ تشریف لائے اور پھر سردار بلدیو سنگھ آگئے۔ ان زعماء کی 11.20 منٹ پر میٹنگ ختم ہو گئی۔ لہٰذا تینوں مذہبی قوتوں کے نمائندگان نے تقسیم ہند پلان کو قبول کیا۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے یہ شرط رکھی کہ تقسیم ہند کا یہ فیصلہ اس وقت لاگو ہو گا جب آل انڈیا مسلم لیگ کونسل قبول کرے گی۔ لہٰذا 3 جون 1947ء کو تقسیم ہند پلان کا اعلان آل انڈیا ریڈیو سے کیا گیا یعنی مسلم لیگ کی ڈیمانڈ "پاکستان" کا اعلان ہو گیا۔ اس تقسیم ہند میں تقسیم بنگال ، پنجاب شامل تھی اور ساتھ ہی صوبہ سرحد اور سلہٹ میں ریفرنڈم ہونا تھا۔
586 صوبائی ریاستوں کے وجود کو چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے جغرافیائی اعتبار سے کسی ایک ڈومین کو جوائن کر سکتی ہیں۔
مثلاً حیدر آباد (دکن) کے نظام نے 15 اگست 1947 کو آزاد ریاست کا اعلان کیا جو 1948 میں بھارت نے طاقت کے ذریعہ اپنے قبضہ میں کر لی۔ اسی طرح ریاست بھوپال پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔
حالات یہ بتاتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے کسی خاص دباﺅ کے تحت بھارتی حکومت کے سربراہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن سے خط کے ذریعہ مدد چاہی کہ اُن کی ریاست میں ایمرجنسی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ نوجوان کشمیریوں میں بے چینی ہے اور وہ مہاراجہ کا ساتھ نہیں دے رہے۔
آپ کو علم ہے کہ جموں اینڈ کشمیر تو بھارت کی ڈومین میں شامل ہے اور نہ پاکستان ڈومین میں۔ تاہم میری ریاست جغرافیائی اعتبار سے دونوں ممالک کے ساتھ ملتی ہے اور دونوں کے ساتھ ثقافتی تعلقات موجود ہیں اور کچھ سرحدیں روس اور چین کے ساتھ لگتی ہیں۔
لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے مہاراجہ کی مدد کی کہ شیخ عبداللہ کی حکومت بطور وزیراعظم کے قائم کردی۔ گورنر جنرل بھارت اور پنڈت جواہر لعل نہرو اس سازشی سکیم میں شامل تھے۔ 26 اکتوبر کو بھارتی فوجیں سری نگر براستہ گورداسپور داخل ہوگئیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ گورنر جنرل پاکستان لاہور میں مقیم تھے اور علیل تھے۔ آپ نے پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ بھارتی فوجیں غیر قانونی طریقے سے سری نگر میں داخل ہو گئی ہیں۔ پاکستانی فوج کے دو بریگیڈز بارہ مولا اور سری نگر فوراً بھجوائیں اور قبضہ کر لیں۔
جنرل گریسی نے چیف آف کمانڈر بھارت پاکستان جنرل اکیلین سے رابطہ کیا۔ لہٰذا اس نئی پوزیشن کو جاننے کے لئے 29 اکتوبر 1947ء کو لاہور میں میٹنگ رکھی گئی جس میں وزیر اعظم پاکستان، بھارت، دونوں گورنر جنرل اور کمانڈر انچیف شامل تھے۔
اسی دوران پنڈت جواہر لعل نہرو بیمار پڑ گئے۔ میٹنگ نہ ہوئی، تاہم ایک معاہدہ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور گورنر جنرل پاکستان کے مابین ہوا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر کے لوگوں کی مرضی سے ہوگا۔
30 اکتوبر 1947ء کو یونیورسٹی گراﺅنڈ لاہور میں قائداعظمؒ نے فرمایا....ہم ایک خفیہ سازش کے ذریعہ سے کشمیر میں اس حملے کا شکار ہوئے ہیں۔ مگر یقین ہے کہ ہمارا دشمن کامیابی حاصل نہیں کر پائے گا۔ ہمارا کردار صاف شفاف ہے دنیا جانتی ہے کہ ہم سچائی پر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت مقبوضہ کشمیر پر اکڑ دکھائے گا لیکن اب۔۔۔؟ خواجہ آصف کھل کر بول پڑے
کتاب کا حوالہ
کتاب ’’مسلم لیگ اور تحریک پاکستان سے اقتباس ‘‘
نوٹ
ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں