وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے انکشاف کیا کہ کراچی میں گرفتار دہشت گردوں نے اپنے سرپرستوں کے نام بتا دیئے ہیں جن سے عوام کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔

مصنف کی بصیرت
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 125
یہ بھی پڑھیں: انٹراپارٹی انتخابات نظرثانی کیس؛میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو،حامد خان اورچیف جسٹس میں تلخ جملوں کا تبادلہ
معاشرتی سطح پر فرقہ واریت
عمومی کشیدگی کی سب سے بڑی علامت معاشرتی سطح پر فرقہ وارانہ ترک تعلق ہوتا ہے لیکن لوگ ایک دوسرے کا حْقہ پانی بھی بند کرتے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرقہ واریت کے عنوان سے ہونے والی یہ دہشت گردی درحقیقت فرقہ وارانہ نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کا مصنوعی بحران اور جواز پیدا کر کے ملک کی نظریاتی اساس اور اسلامی نظریہئ حیات پر خطرناک اور پْرفریب حملہ کرنے کی کوششیں کرتے محسوس ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محمد اشفاق بدایونی کی دوسری کتاب “عابد اسکوائر” کی جلد رونمائی متوقع
حکومتی اقدامات اور بیان
30 نومبر 1994ء کو فوج بیرکوں میں واپس گئی اور یکم دسمبر کو وزیر داخلہ نے سینٹ میں کہا ”علماء حضرات مختلف جلسوں اور جمعہ کے خطبے میں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں جس سے دوسرے فرقوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔“
اس طرح وزیر داخلہ نے اندرونِ ملک خون ریزی اور دہشت گردی کو فرقہ واریت کا نیا عنوان دیا۔ بعدازاں مساجد اور امام بارگاہوں میں بم دھماکے اور گولیاں برسانے کے واقعات ہوئے لیکن آج تک حکومت نے ان واقعات سے حاصل ہونے والی تفتیش اور معلومات کی بناء پر فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری خیال نہیں کیا جو کہ ایک غیر سنجیدہ طرز عمل ہے اور حکومتی سطح پر اخلاص مفقود اور ناپید نظر آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ، پاکستان کے خلاف میچ سے قبل بھارت کا اہم کھلاڑی مبینہ طور پر زخمی ہو گیا
کراچی میں صورتحال
12 دسمبر 1994ء کو روزنامہ جنگ کراچی کے مطابق وزیر داخلہ نے کراچی میں دہشت گردی کے روزافزوں واقعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”اب کراچی میں قتل و غارت کی نوعیت بدل گئی ہے اور صلاح الدین جیسے نمایاں جرنلسٹ افراد بھی قتل کیے جانے لگے ہیں۔ تاہم سندھ میں فوج کی دوبارہ تعیناتی کا کوئی امکان نہیں۔ رینجرزاور پولیس ہی صورتحال کو کنٹرول کر لیں گے۔“
یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹوئنٹی، بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی بیٹنگ جاری
وزیر اعظم کا انکشاف
روزنامہ جسارت کراچی 20 دسمبر 1994ء کے مطابق 19 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پیپلز پارٹی اور اْس کی اتحادی پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس سے خطاب کے دوران کراچی کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے انکشاف کیا تھاکہ کراچی میں گرفتار دہشت گردوں نے اپنے سرپرستوں کے نام بتا دئیے ہیں جن سے عوام کو بھی آگاہ کر دیا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وسط دسمبر میں وزیر اعظم پاکستان کو دہشت گردوں کے سرپرستوں کا سراغ مل گیا تھا تو پھر جنوری، فروری اور اب مارچ 1995ء میں دہشت گردی کیوں جاری رہی؟ اور آج تک عوام کو کیوں نہیں بتایا گیا کہ دہشت گردوں اور اْن کا سرپرست کون ہے؟
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے بیرون ممالک بننے والی فلموں پر 100 فیصد ٹیرف عائد کردیا
دینی مدارس پر حکومتی کنٹرول
12 جنوری 1995ء کو اسلام آباد میں وزیر اعظم پاکستان کے زیر صدارت وزارت داخلہ میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کے نام پر دینی مدارس کو حکومتی شکنجے میں لانے کے لئے کچھ فیصلے کئے گئے جن کے بارے میں ہفت روزہ تکبیرکراچی نے 2 فروری 1995ء کے شمارے میں لکھاکہ
”امریکا سے حکومت پاکستان کے تعلقات کشیدہ نہیں ہیں ہمیں یہ بنیادپرستی کے خلاف امریکی مہم کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے کہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی اور جرائم پیشہ افراد کی دہشت گردی کو نظرانداز کر کے ایک مصنوعی فرقہ وارانہ بحران پیدا کر کے علماء اور دینی مدارس کو شکنجے میں کسنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔“
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔