وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے انکشاف کیا کہ کراچی میں گرفتار دہشت گردوں نے اپنے سرپرستوں کے نام بتا دیئے ہیں جن سے عوام کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔

مصنف کی بصیرت

مصنف: رانا امیر احمد خاں

قسط: 125

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2025-26: پاکستانیوں کی اکثریت کیا سوال پوچھ رہی ہے؟ حامد میر نے دلچسپ نکتہ اٹھا دیا

معاشرتی سطح پر فرقہ واریت

عمومی کشیدگی کی سب سے بڑی علامت معاشرتی سطح پر فرقہ وارانہ ترک تعلق ہوتا ہے لیکن لوگ ایک دوسرے کا حْقہ پانی بھی بند کرتے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرقہ واریت کے عنوان سے ہونے والی یہ دہشت گردی درحقیقت فرقہ وارانہ نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کا مصنوعی بحران اور جواز پیدا کر کے ملک کی نظریاتی اساس اور اسلامی نظریہئ حیات پر خطرناک اور پْرفریب حملہ کرنے کی کوششیں کرتے محسوس ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کے انٹراپارٹی انتخابات درست قرار، سرٹیفکیٹ جاری

حکومتی اقدامات اور بیان

30 نومبر 1994ء کو فوج بیرکوں میں واپس گئی اور یکم دسمبر کو وزیر داخلہ نے سینٹ میں کہا ”علماء حضرات مختلف جلسوں اور جمعہ کے خطبے میں ایک دوسرے کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں جس سے دوسرے فرقوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔“

اس طرح وزیر داخلہ نے اندرونِ ملک خون ریزی اور دہشت گردی کو فرقہ واریت کا نیا عنوان دیا۔ بعدازاں مساجد اور امام بارگاہوں میں بم دھماکے اور گولیاں برسانے کے واقعات ہوئے لیکن آج تک حکومت نے ان واقعات سے حاصل ہونے والی تفتیش اور معلومات کی بناء پر فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری خیال نہیں کیا جو کہ ایک غیر سنجیدہ طرز عمل ہے اور حکومتی سطح پر اخلاص مفقود اور ناپید نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہے، ہندوستان جان لے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو کبھی نہیں چھوڑے گا، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر

کراچی میں صورتحال

12 دسمبر 1994ء کو روزنامہ جنگ کراچی کے مطابق وزیر داخلہ نے کراچی میں دہشت گردی کے روزافزوں واقعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”اب کراچی میں قتل و غارت کی نوعیت بدل گئی ہے اور صلاح الدین جیسے نمایاں جرنلسٹ افراد بھی قتل کیے جانے لگے ہیں۔ تاہم سندھ میں فوج کی دوبارہ تعیناتی کا کوئی امکان نہیں۔ رینجرزاور پولیس ہی صورتحال کو کنٹرول کر لیں گے۔“

یہ بھی پڑھیں: جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کئے وہ قیمت ادا کر رہے ہیں: اسحاق ڈار

وزیر اعظم کا انکشاف

روزنامہ جسارت کراچی 20 دسمبر 1994ء کے مطابق 19 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پیپلز پارٹی اور اْس کی اتحادی پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس سے خطاب کے دوران کراچی کی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے انکشاف کیا تھاکہ کراچی میں گرفتار دہشت گردوں نے اپنے سرپرستوں کے نام بتا دئیے ہیں جن سے عوام کو بھی آگاہ کر دیا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وسط دسمبر میں وزیر اعظم پاکستان کو دہشت گردوں کے سرپرستوں کا سراغ مل گیا تھا تو پھر جنوری، فروری اور اب مارچ 1995ء میں دہشت گردی کیوں جاری رہی؟ اور آج تک عوام کو کیوں نہیں بتایا گیا کہ دہشت گردوں اور اْن کا سرپرست کون ہے؟

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش نے پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سکواڈ کا اعلان کر دیا

دینی مدارس پر حکومتی کنٹرول

12 جنوری 1995ء کو اسلام آباد میں وزیر اعظم پاکستان کے زیر صدارت وزارت داخلہ میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کے نام پر دینی مدارس کو حکومتی شکنجے میں لانے کے لئے کچھ فیصلے کئے گئے جن کے بارے میں ہفت روزہ تکبیرکراچی نے 2 فروری 1995ء کے شمارے میں لکھاکہ

”امریکا سے حکومت پاکستان کے تعلقات کشیدہ نہیں ہیں ہمیں یہ بنیادپرستی کے خلاف امریکی مہم کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے کہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی اور جرائم پیشہ افراد کی دہشت گردی کو نظرانداز کر کے ایک مصنوعی فرقہ وارانہ بحران پیدا کر کے علماء اور دینی مدارس کو شکنجے میں کسنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔“

نوٹ

یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...