نریندرمودی کے دور میں اسرائیلی سفیر ’’وائسرائے‘‘کی حیثیت رکھنے لگا،دباؤ پر مبنی پالیسیوں کیخلاف بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں
نریندر مودی کا نیا بھارت
لاہور (طیبہ بخاری سے) نریندرمودی کے ’’نئے بھارت‘‘ میں اسرائیلی سفیر ’’وائسرائے‘‘ کی حیثیت رکھنے لگا، اسرائیلی سرپرستی اور دباؤ پر مبنی پالیسیوں پر بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں۔ انتہا پسند ہندو اور یہود کا گٹھ جوڑ، مسلمانوں اور سیکولر نظریات رکھنے والے ہندوؤں کے خلاف گھناؤنی سازش بے نقاب ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: کے پی کے میں آندھی، طوفان اور بارش سے 8 افراد جاں بحق، لاہور میں دو زخمی
پریانکا گاندھی کا بیان
تفصیلات کے مطابق مودی سرکار کی دوغلی سیاست اور ریاستی پالیسیوں پر اسرائیلی بیانیے کی چھاپ نمایاں ہو گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ پریانکا گاندھی کا کہنا تھا کہ ’’مودی حکومت کی خاموشی ’’شرمناک‘‘ اور فلسطین سے متعلق مؤقف ’’فریب پر مبنی‘‘ ہے، دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت زیر تنقید لیکن بھارتی حکومت مسلسل خاموش ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: قیمتیں کم اور اشیاء خالص تھیں، دیسی گھی کھانے والے کو آج پینڈو سمجھا جاتا ہے یا حسرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ڈبل روٹی بیماروں کی خوراک تھی۔
اسرائیلی سفیر کا ردعمل
پریانکا گاندھی کے اس بیان کو بھارت میں اسرائیل کے سفیر ریوین آزر نے ’’شرمناک‘‘ قرار دے دیا۔ ریوین آزر کا حالیہ بیان بھارت پر اسرائیلی اثر و رسوخ کی واضح جھلک ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان صرف دفاعی یا تکنیکی تعاون نہیں بلکہ نظریاتی ہم آہنگی کا گٹھ جوڑ بھی واضح ہے۔
صوفی حکومت کی چالیں
نریندر مودی کے ’’نئے بھارت‘‘ میں اسرائیلی سفیر ’’وائسرائے‘‘ کی حیثیت رکھنے لگا، اسرائیلی سرپرستی اور دباؤ پر مبنی پالیسیوں پر بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ڈمی وزیراعظم مودی پر اسرائیلی اثر و رسوخ خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ انتہا پسند ہندو اور یہود کا گٹھ جوڑ، مسلمانوں اور سیکولر نظریات رکھنے والے ہندوؤں کے خلاف گھناؤنی سازش ہے جو بے نقاب ہو چکی ہے۔








