گہری کھائیاں راستہ روکے کھڑی تھیں، عجیب لائن تھی جو محبوب کی زلفوں کی طرح اٹھکیلیاں کرتی کبھی اس طرف کبھی دوسری طرف بھاگی پھرتی۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 225

پہلا مرحلہ اور منصوبہ بندی

زمینی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اس لائن کو مرحلہ وار بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ اور آخر کار ایک دن اس پٹری کو بچھانے کی آخری منظوری بھی آ گئی۔ اخراجات کو کم رکھنے کی خاطر پہلے یہاں میٹر گیج پٹری بچھانے کی سفارش کی گئی تھی۔ بعد میں کچھ بحث و مباحثہ اور سوچ بچار کے بعد یہ طے پایا کہ میٹر کے بجائے اسے بھی براڈ گیج میں ہی تعمیر کیا جائے، تاکہ اس کا رابطہ ہندوستان کے ان تمام مرکزی علاقوں اور چھاؤنیوں سے بنا رہے جہاں اب یہی پٹریاں استعمال ہو رہی تھیں۔

ابتدائی تعمیرات

1905ء میں ریلوے کے اس عظیم منصوبے کا افتتاح ہوا اور پہلے مرحلے میں پشاور سے جمرود تک کوئی 18 کلومیٹر ریل کی پٹری بچھائی گئی۔ یہ میدانی راستہ تھا اور نسبتاً سہل تھا۔ اس لائن کے مکمل ہوتے ہی پشاور جمرود سیکشن پر گاڑیوں کی آمد و رفت بھی شروع ہو گئی۔

دوسرا مرحلہ

2 سال بعد یعنی 1907ء میں کل 32 کلومیٹر تک پٹری مکمل کر دی گئی۔ تب ہی ایک نئی صورت حال نے جنم لیا۔ سوویت یونین نے، جن کی طرف سے ہمیشہ حکومت برطانیہ کو در اندازی کا دھڑکا لگا رہتا تھا، صاف صاف پیغام پہنچا دیا کہ اس کا اب افغانستان پر حملہ یا قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس بڑے خطرے کی طرف سے مطمئن ہو کر حکومت نے اس منصوبے پر جاری کام کو فوری طور پر معطل کر دیا۔

امن کی حالت

جنگ کا خدشہ تو وقتی طور پر ٹل گیا اور آنے والے کئی برسوں تک یہاں امن اور سکون ہی رہا، البتہ سرحد پر افغانستان کی غیر منظم فوجوں اور قبائلی جنگجوؤں کے ساتھ مسلسل جھڑپیں چلتی رہتی تھیں جن پر وہاں متعین افواج قابو پا لیتی تھیں۔

1919ء کا حملہ اور منصوبے کی بحالی

پھر 1919ء میں ایک بار پھر افغانستان کی طرف سے سرحد پر تیسرا بڑا حملہ ہوا جس کو سرکاری فوجوں نے سنبھال تو لیا مگر کافی جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ لہٰذا اب اس پٹری کی تعمیر کو ناگزیر قرار دے کر ایک مرتبہ پھر پورے زور و شور سے اس پر کام شروع ہو گیا۔

دشوار گزار راستہ

جمرود سے آگے لنڈی کوتل تک کا راستہ بڑا ہی کٹھن اور دشوار گزار تھا۔ جا بجا چھوٹے بڑے پہاڑ اور گہری کھائیاں راستہ روکے کھڑی تھیں۔ یہاں گاڑی کو کئی پہاڑیوں پر چڑھنا اور اترنا تھا، اور ایک دو جگہ تو اسے تقریباً 4 ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ کر پھر نیچے آنا تھا۔ یہ بڑی عجیب و غریب سی لائن تھی جو محبوب کی زلفوں کی طرح اٹھکیلیاں کرتی ہوئی کبھی اس طرف تو کبھی دوسری طرف بھاگی پھرتی تھی۔

سرنگیں اور پل

راستے میں 63 سرنگیں اور کوئی 92 کے لگ بھگ چھوٹے بڑے پل بھی بنانا پڑے تھے۔ سرنگیں گو زیادہ طویل تو نہیں تھیں، پھر بھی سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹ کر ان کی کھدائی کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ سارا تعمیراتی سامان جمرود تک تو ریل گاڑی کے ذریعے آتا تھا، اس سے آگے خچروں، اونٹوں یا بیل گاڑیوں پر متعلقہ جگہ پر پہنچایا جاتا تھا۔

مزدوروں کی محنت

ہزاروں کی تعداد میں مزدور، کاریگر اور انجنیئر ہمہ وقت اس لائن کی تعمیر میں مصروف رہتے تھے جن کی نگرانی منصوبے کا انگریز چیف انجینئر اور اس کے نائبین کیا کرتے تھے۔

نوٹ

یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...