کرپشن نے ہر شے کو تہس نہس کر دیا ہے اور ابھی بھی کسی کو اس کا ادراک نہیں،کرپشن کو تحفظ دیتے دیتے ہم نے ملک کو ہی داؤ پر لگا دیا

مصنف کی شناخت
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 266
یہ بھی پڑھیں: روس کی بڑی کامیابی، سرحدی علاقے کا قبضہ دوبارہ حاصل کر لیا، صدر ولادیمیر پیوٹن کا دعویٰ
کام سے انکار
میں نے کام نہیں کرنا؛
جج صاحب کا ہر کارہ آیا اور کہا “جج صاحب یاد کر رہے ہیں۔” میں نے جواب دیا “انہیں بتا کر آیا ہوں کہ مزید کام نہیں کرنا۔ میں اب نہیں آؤں گا اور نہ ہی میری ٹیم۔” یہ الیکشن ڈے سے 2 دن پہلے کی بات تھی۔ یہی 2 دن بہت اہم ہوتے تھے کہ انہی دنوں میں پولنگ بیگ میں بیلٹ پیپر ڈالے جاتے تھے اور پھر متعلقہ پولنگ سٹاف میں تقسیم کئے جاتے تھے۔ انہیں اپنے اپنے پولنگ سٹیشن پر پہنچنا ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یک زبان: فلسطینیوں کے ساتھ قومی قیادت کی یکجہتی کا اظہار
مظفر شاہ کا پیغام
کچھ دیر اور گزری تو مظفر شاہ صاحب دفتر آئے اور جج صاحب کا پیغام ہے؛ “واپس دفتر آئیں میں اپنے رویہ کی معذرت کرنے کو تیار ہوں۔” مظفر شاہ صاحب سے میری پہلے سے شناسائی تھی۔ (یہ اچھے اور ملنسار تھے۔ ایک بار میں دفتر کے نائب قاصد کے ایک کام کے سلسلے میں راجہ جاوید کے ہمراہ ان سے ملا تھا۔ انہوں نے بہت عزت افزائی کی تھی۔) میں نے اپنی ٹیم سے مشورہ کیا اور سب نے کہا؛ “سر! اس پیشکش کے بعد ہمیں بھی ضد نہیں لگانی چاہیے۔” خیر ہم واپس آئے۔ عطا رسول کوئیہ نے معذرت کی۔ باقی کام نمٹا دیا۔ بیگ تقسیم کئے اور پھر فوجی بھائی انہیں اپنی حفاظت میں ان کے پولنگ سٹیشن تک لے گئے۔ شام 4 بجے تک سارے پولنگ بیگ تقسیم کرکے ہم بھی گھروں کو چلے آئے۔ اگلی صبح دن ساڑھے گیارہ بجے تک ہماری کارکردگی کا امتحان تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جس نے 9مئی کو آگ لگائی، اس پر پراسیکیوشن کے ساتھ ہیں،چیف جسٹس پاکستان
الیکشن کا دن
الیکشن والے دن کے پہلے دو تین گھنٹے ہی مشکل ہوتے تھے کہ اسی ٹائم میں شکایات موصول ہوتیں۔ اس کے بعد تو بس چل سو چل والی بات تھی۔ شام کو مغرب کے بعد اصل کام شروع ہوتا جب رزلٹ آنے لگتے تھے۔ رزلٹ وصول کرنا، بیگ جمع کرنا، مہریں مخصوص بیگ میں ڈالنا اور سب سے بڑھ کر رزلٹ کی تیاری۔ ہر الیکشن میں یہ ضرور ہوتا کہ ایک دو پزائیڈنگ افسر رات نیند پوری کرکے اگلے روز ہی واپس ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچتے اور ہمیں بے چینی سے ان کا انتظار ہوتا۔ پولیس کو بھی ان کے گھر بھیجتے مگر وہ بھی کم سیانے نہ تھے کسی رشتہ دار یا دوست کے گھر چین کی نیند سو رہے ہوتے تھے۔ اگلے روز وہ کنگھی پٹی کرکے مسکراتے عدالت میں آتے اور کسی بات کی پرواہ کئے بغیر اپنا تھیلہ جمع کرواتے، رزلٹ کی پرچی تھماتے اور خراماں خراماں گھر کی راہ لیتے، جبکہ ہم رات بھر خراب ہوتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: درجنوں وارداتوں میں ملوث ملزم گرفتار، ایک کروڑ سے زائد کی ریکوری
غائب پزائیڈنگ افسر
دو پزائیڈنگ افسر غائب؛
اس الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ہم رات بھر 2 لوگوں کا انتظار کرتے رہے تھے۔ وہ لاپراہ اور بے پراہ لوگ مسکراتے آئے اور ہماری بے بسی پر مسکراتے ہی واپس چلے گئے۔ یہ الیکشن بھی اختتام پذیر ہوا۔ سب دوستوں کا شکریہ ادا کیا کہ ایک اور assignment خوش اسلوبی سے انجام پائی۔ شکر اللہ کا۔
یہ بھی پڑھیں: سروسز چیف کی مدت بڑھانے کے معاملے پر مولانا فضل الرحمان اور تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر بڑا فیصلہ کر لیا
کرپشن کے اثرات
کچھ دنوں بعد معلوم ہوا ایڈیشنل سیشن جج عطا رسول جوئیہ معطل کر دئیے گئے تھے اور بعد میں وہ نوکری سے برخاست ہو گئے۔ ان پر کرپشن کے الزامات تھے۔ اس ملک میں کرپشن نے ہر شے کو تہس نہس کر دیا ہے اور ابھی بھی کسی کو اس کا ادراک نہیں۔ کرپشن کو تحفظ دیتے دیتے ہم نے ملک کو ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (صاحب حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔