کراچی میں اربن فلڈنگ، مون سون اور ہیٹ ویو سے 15 سال میں 3،130 ہلاکتیں

کراچی میں ہلاکت خیز حالات
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) کراچی میں اربن فلڈنگ، مون سون اور ہیٹ ویو سے پچھلے پندرہ سال میں 3 ہزار 130 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ جبکہ گزشتہ 75 برسوں میں پاکستان 35 ہلاکت خیز سیلابوں کی زد میں آیا۔ 2010، 2016، 2022 اور 2025 کے سیلاب نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔
یہ بھی پڑھیں: بہاولپور میں بھارتی جارحیت کا نشانہ بننے والی جگہ سے اجمل جامی کو کیا ملا؟
معاشی نقصان کا تخمینہ
ہم نیوز انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیق کے مطابق، اب تک ان سیلابوں سے ملکی معیشت کو 69 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان سیلابوں نے 16 ہزار سے زائد انسانی جانیں نگل لیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں ایم ڈی کیٹ کے عبوری نتائج کا اعلان، 38 ہزار سے زائد امیدواروں نے حصہ لیا تھا
پچھلے سالوں میں اموات
2015 میں کراچی میں مون سون اور ہیٹ ویو سے 1200 افراد موت کے منہ میں گئے۔ پچھلے سال ریکارڈ 49.7 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ ہونے کے باعث 568 افراد لقمہ اجل بنے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف پر پریشان ضرور مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
سالانہ اموات کی تفصیلات
2022 میں بارشوں اور ہیٹ ویو سے 433 افراد، 2020 میں 414، 2018 میں 205، 2014 میں 119، 2012 میں 65، 2010 میں 48، 2019 میں 30، 2021 میں 6، 2023 میں 4 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ اس سال رواں سال 14 افراد چل بسے۔
یہ بھی پڑھیں: شاہین آفریدی نے قومی ٹیم کے تربیتی کیمپ میں حصہ کیوں نہیں لیا؟
مواردات کی تحقیقات
تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی میں مون سون کی وجہ سے ہونے والی اموات عموماً بارش سے نہیں ہوتیں بلکہ اربن فلڈنگ، جہاں ناکافی اور بند نالے پانی کے جمع ہونے کا سبب بنتے ہیں، الیکٹروکرشن یعنی خراب دیکھ بھال اور غیر قانونی لٹکی ہوئی بجلی کی تاریں اور ٹرانسمیشن پول بارش کے پانی میں جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی خود کو معاشی پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ناکام ہونے لگی، تہلکہ خیز رپورٹ آگئی
این ڈی ایم اے کی کارروائیاں
این ڈی ایم اے نے کراچی میں دو بڑے نالوں، گجر نالہ اور اورنگی نالہ، کے لگ بھگ 11 ارب روپے کے ٹھیکے نیم سرکاری کمپنیوں کو دیئے تاکہ ان نالوں کے صاف کرکے کراچی کو اربن فلڈنگ سے بچایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب والے چشمہ جہلم لنک کینال سے سندھ کا پانی چوری کرتے ہیں، شرمیلا فاروقی
مالی بے ضابطگیاں
سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں ایک نیم سرکاری کمپنی کو اصل رقم سے ایک ارب 83 کروڑ زیادہ ادا کئے گئے۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ این ڈی ایم اے نے پچھلے سال اس کمپنی کو دس ارب، 10 لاکھ کی ادائیگی کی جبکہ اصل ادائیگی 9 ارب اکاون کروڑ کی بنتی تھی۔ اسی طرح دوسری نیم سرکاری کمپنی کو بھی ایک مہنگا ٹھیکہ دیا گیا، جس کو بھی ایک ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی۔
این ڈی ایم اے کی اضافی ادائیگیاں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے نے گجر نالہ پر نیم سرکاری کمپنی کو پانچ ارب 67 کروڑ کی اضافی ادائیگی کی۔ این ڈی ایم اے اور ٹھیکے لینے والی کمپنیوں نے ہم انوسٹی گیشن ٹیم کو سوالات کے جوابات نہیں دیئے۔