25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب نہ کرسکیں تو یہ المیہ ہے، عثمان شامی

تجزیہ کار عثمان شامی کی رائے
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) تجزیہ کار عثمان شامی کا کہنا ہے اگر مقدمات پہلے ختم ہو جائیں تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کس ایجنڈے پر ہونے ہیں۔ اس وقت ملک میں 3 بڑے لیڈر عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری ہیں جو مذاکرات کے ذریعے قوم کو کسی ایک طرف لے کر جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عظمیٰ بخاری نے لاہور پریس کلب ہاؤسنگ سکیم ایف بلاک میں بجلی کی تنصیب کا افتتاح کر دیا
مذاکرات کی موجودہ صورتحال
دنیا ٹی وی کے پروگرام تھنک ٹینک میں گفتگو کرتے ہوئے عثمان شامی نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے جو بیان دیا کہ موجودہ صورتحال میں نواز شریف کردار ادا کریں لیکن وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ عمران خان کہتے ہیں چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھنا۔ عمران خان کا پورا بیانیہ ہی اسی بنیاد پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت سے ہر قسم کی اشیاء کی درآمد پر پابندی، نوٹیفکیشن جاری
پاکستانی سیاست اور دوہرے کردار
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لگتا ہے پاکستان میں سیاستدانوں کو split personality disorder ہے، اپوزیشن میں الگ اور حکومت میں ان کا الگ ہی کردار ہوتا ہے۔ملک کو جمہوری طریقے سے چلانا ہے تو اپوزیشن کا گلہ نہیں گھونٹا جا سکتا۔ دوسری جانب ہر اقتدار میں آنے والی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے۔ پی ٹی آئی دور میں بھی اپوزیشن کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا جو موجودہ حکومت کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں بوندا باندی اور ہلکی بارش کا امکان
حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات
عثمان شامی نے مزید کہا کہ حکومت نہیں چاہتی عمران خان کو کسی قسم کا ریلیف ملے۔ معافی کی باتوں سے حکومت خود گھبراہٹ کا شکار تھی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی باتیں وقت گزارنے کے لئے ہیں، اگر مذاکرات کرنے ہیں تو چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے معاملے پر کریں۔ 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب نہ کرسکیں تو یہ المیہ ہے۔
عمران خان کی عوامی مقبولیت کا خدشہ
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ڈر ہے عمران خان کو راستہ دیا تو وہ ان کو بہا کر لے جائیں گے تو دوسری طرف عمران خان کو حکومت کے ساتھ مذاکرات سے عوامی مقبولیت ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ عمران خان صاحب نے جو کام از خود نہیں کرنا ہوتا اس میں وہ سیاسی کمیٹی کو آگے کر دیتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال مرزا آفریدی کو سینیٹ کا ٹکٹ دینا ہے، تو حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ بھی سیاسی کمیٹی کو دیا جا سکتا ہے۔