گاڑی کی رفتار اتنی سست اور باعث آزار ہوتی کہ مسافر کود کر چڑھ جاتا، انگڑائیاں لے کر کمر سیدھی کرتے ایک آدھ سگریٹ بھی پھونک ڈالتے تھے۔

مصنف کا تعارف

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 226

یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل کا خطاب کب دیا جاتا ہے، کیا اس سے اوپر بھی کوئی عہدہ ہوتا ہے؟

تاریخی پس منظر

آخر ایک دن نصف صدی کی یہ محنت رنگ لائی اور 1925ء میں یہ لائن مکمل ہو گئی۔ اس کی تعمیر پر اس وقت کوئی 5 لاکھ روپے خرچ آیا تھا۔ اس لائن کی پشاور سے کل لمبائی 58 کلومیٹر تھی اور اس پر 13 اسٹیشن بنائے گئے تھے جہاں گاڑی کے لیے رکنا لازمی تھا۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ طاہر اشرفی کے چھوٹے بھائی حافظ محمد احمد انتقال کر گئے

ریل گاڑی کی خصوصیات

مسلسل چڑھائی ہونے کی وجہ سے اس ریل گاڑی کو دو بھاپ کے انجن لے کر چلتے تھے، ایک سامنے ہوتا جو پْورا زور لگا کر گاڑی کو کھینچتا تھا اور دوسرا بینکر انجن عقب میں لگتا تھا جو اسے دھکیلتا رہتا تھا۔ دو انجن لگانے کی دو وجوہات تھیں: ایک تو یہ ڈر تھا کہ سامنے والا انجن جو ہانپتا کانپتا گاڑی کو کھینچ کر اْوپر چڑھتا تھا، کہیں بیچ میدان میں ہی حوصلہ نہ ہار بیٹھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر سامنے والا انجن اگر تنہا گاڑی کو کھینچ نہ سکے تو گاڑی ان دشوار پہاڑی راستوں پر پیچھے ہی نہ پھسل جائے۔

یہ بھی پڑھیں: انسٹاگرام پر سیاحت سے متعلق سٹیٹس نے دو گھروں کی چوری کا کیسے سبب بنایا

خاص انتظامات

ایسے ہی خطرات سے بچنے کی خاطر اس پتری پر خصوصی انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ کیونکہ اس لائن پر مسلسل چڑھائی اور اترائی سے بسا اوقات گاڑی کو یکدم مڑنا پڑتا تھا جو ممکن نہیں تھا۔ اس لیے گاڑی ایک دو بار رک کر پیچھے آتی اور پھر تھوڑی بلندی کی طرف جاتے ہوئے دوسری پٹری سے دوبارہ اوپر چڑھتی ہے۔ اس قسم کے مقام کو ریورس اسٹیشن یا زگ زیگ لائن بھی کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی جانب سے ایشیا کپ کیلئے ہاکی ٹیم کو بھارنے نہ بھیجنے امکان

خطرات کا سامنا

پھر گاڑی کو نشیب میں اتارتے وقت اس کے بے قابو ہونے کا خطرہ بھی موجود ہوتا تھا۔ اس سے بچنے کے لیے ایک ثانوی پٹری بنائی جاتی تھی جسے کیچ سائیڈنگ لائن کہا جاتا ہے۔ جہاں بے قابو گاڑی کا رخ بدل کراس کو بلندی کی طرف بنائی گئی اس مخصوص پٹری پر چڑھا دیا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ نو مئی کے 2 مقدمات کا محفوظ فیصلہ آج سنایا جائے گا

راستے کی دشواریوں کا سامنا

اسی طرح کے کئی مقامات اس دشوار گزار پٹری پر بھی بنائے گئے تھے۔ دونوں انجنوں سے مسلسل بھاپ کی فراہمی کے لیے ضروری تھا کہ ہر دس بارہ کلومیٹر کے بعد کسی اسٹیشن پر ان میں پانی بھر کے تازہ کرنے کا بندوبست کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون نے 30 سال بعد سگریٹ چھوڑی تو زندگی میں کیا تبدیلیاں آئیں؟

مسافروں کا تجربہ

اس گاڑی کی رفتار اتنی سست اور باعث آزار ہوتی تھی کہ دوڑتا ہوا کوئی بھی مسافر کود کر اس میں چڑھ جاتا تھا۔ کچھ من چلے اور دِل جلے مسافر کسی اونچی پہاڑی پر چڑھائی کے آغاز پر ہی چلتی گاڑی سے چھلانگ مار کر نیچے کود جاتے۔ اگر یہ لوگ مناسب تعداد میں ہوتے اور ان کی طبیعت رقص کی طرف مائل ہوتی تو وہ ایک دوسرے کو آنکھ سے اشارہ کرتے اور پھر وہاں کوئی ہموار سطح تلاش کر کے پشتو ٹپے گاتے اور خٹک ناچ کے بھی دو چار پھیرے لگاتے تھے۔

سفر کی تسلسل

پھر پیدل ہی خراماں خراماں اسی پہاڑی پر اوپر چڑھ جاتے تھے اور کہیں بیٹھ کر ریل گاڑی کا انتظار کرتے تھے، جو اس دوران مزے سے پہاڑی کے گرد لمبا چکر لگا کر اور کچھ سرنگوں میں سے گزر کر وہاں پہنچتی تھی۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...