پشاور سے لنڈی کوتل تک پہنچنے میں گاڑی 4 گھنٹے تو آرام سے لگا ہی دیتی تھی، مجموعی طور پر اس کی رفتار ایک عام سے سائیکل سوارجتنی ہی ہوتی تھی۔

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 227
پشاور سے لنڈی کوتل تک پہنچنے میں گاڑی کوئی 4 گھنٹے تو آرام سے لگا ہی دیتی تھی۔ مجموعی طور پر اس کی رفتار ایک عام سے سائیکل سوار جتنی ہی ہوتی تھی۔ لنڈی کوتل قصبے میں گو اس لائن کا آخری اسٹیشن بنایا گیا تھا، لیکن وہاں سے افغانستان کی سرحد ابھی مزید 5 کلومیٹر آگے طورخم کے مقام پر تھی۔
1926ء میں لنڈی کوتل سے اس پٹری کو کچھ آگے لے جا کر ایک اور قصبے لنڈی خانہ سے ملایا گیا جو طور خم کی سرحد کے قریب ہی لگتا تھا، مگر افغانستان کی احتجاج پر اسے بند کرنا پڑا۔
انگریزوں کی تعمیرات
ریل کے سارے راستے میں خصوصاً اسٹیشنوں کے آس پاس انگریزوں نے جا بجا کئی بڑے اور متاثر کن قلعے تعمیر کر رکھے تھے جہاں فوج کے اعلیٰ افسر دورے کیا کرتے تھے اور کئی کئی روز وہاں قیام بھی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ پٹری کے ساتھ ساتھ خصوصاً پلوں اور سرنگوں پر فوجی چوکیاں بھی قائم کر رکھی تھیں اور اس پٹری پر سرکاری سپاہیوں کی گشت بھی جاری رہتی تھی تاکہ کوئی ریل کے اثاثوں کو نقصان نہ پہنچائے اور سرحد تک متعین تمام فوجوں کو ضروری سامان اور راشن کی ترسیل یقینی اور بر وقت ہوتی رہے۔
ریل لائن کا افتتاح
اس لائن کا باقاعدہ افتتاح 4 نومبر 1925ء کو ہوا تھا۔ پہلی ریل گاڑی کو ایک انگریز خاتون چلا کر پشاور سے لنڈی کوتل تک لے کر گئی تھی۔ حیران ہو گئے نا آپ؟ یہ بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس انگریز لیڈی سے گاڑی چلوانے کی دو وجوہات تھیں۔
پہلا سبب
پہلی تو یہ کہ اس ساری لائن کی تعمیر کے دوران کام کی نگہداشت ایک انگریز انجینئر نے کی جس کا نام وکٹر بیلی تھا۔ اس کی بْری قسمت کہ وہ بہرحال اس لائن کا افتتاح نہ دیکھ سکا اور 3 مہینے قبل ہی انتقال کر گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے اس کی جان توڑ محنت اور قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی بیوی کو یہ اعزاز بخشا کہ اس کے شوہر کی نگرانی میں بنائی گئی اس پٹری پر پہلی ریل گاڑی کو چلا کر اس کا افتتاح وہ کرے گی۔
دوسری داستان
دوسری داستان بخوبی قابل بھروسہ تو نہیں مگر کتابوں میں تحریر ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اس علاقے کے مقامی قبائلی باشندی یہ گاڑی چلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے اور انھوں نے مزاحمت کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ انگریزوں کو علم تھا کہ یہ لوگ خواتین کا بہت احترام کرتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس گاڑی کو پہلی دفعہ ایک خاتون ہی چلا کر لے جائے تاکہ اسے دیکھ کر مقامی قبائلی گاڑی پر حملہ نہ کریں۔
مقامی قبائلیوں کی شرط
مقامی قبائل نے انگریز حکومت کو یہاں سے گاڑی لے جانے پر ایک اور شرط بھی عائد کی تھی جس پر بعد میں تحریری معاہدہ بھی ہوا تھا، جس کی رو سے اس علاقے کے قبائلی باشندے اس گاڑی پر مفت سفر کر سکیں گے۔ اور یہی انتظام آزادی کے بعد پاکستان کی حکومت نے بھی بہت عرصے تک جاری رکھا ہوا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔