میلاد مصطفی ﷺ: ایمان، تاریخ اور ہماری ذمہ داری

تحریر: ایاب احمد
حضور نبی کریم ﷺ کا مقام
امت مسلمہ کے لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کے امتی کہلائے۔ آپ ﷺ کی ذات اقدس ہی وہ مینارِ نور ہے جس نے انسانیت کو اندھیروں سے نکالا اور کائنات کو ہدایت، عدل اور محبت کی روشنی بخشی۔ آپ ﷺ کی آمد وہ انعامِ الٰہی ہے جس پر خوشی منانا خود قرآن کا تقاضا ہے۔
قرآنی حکم
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: “قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا” (یونس: 58) ترجمہ: ’’(اے محبوب!) فرما دیجیے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی انہیں خوشی منانی چاہیے۔‘‘ مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ کا سب سے بڑا فضل اور رحمت خود محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی ہیں۔ اس لیے میلاد النبی ﷺ منانا براہِ راست قرآن کے حکم کے عین مطابق ہے۔
محبت کی ماضی کی مثالیں
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ہر وہ شخصیت جو رسول اللہ ﷺ کی محبت میں ڈوبی رہی، آج بھی زندہ جاوید ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا ذکر آج بھی عقیدت سے ہوتا ہے، ان کے کلماتِ “احدٌ احد” آج بھی ایمان تازہ کرتے ہیں۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، جو شاعرِ رسول کہلائے، نے اپنی زندگی نبی کریم ﷺ کی مدحت میں وقف کر دی۔ ان کے اشعار آج بھی میلاد کی محافل میں پڑھ کر ایمان کو جِلا دی جاتی ہے۔
حضرت حسان بن ثابتؓ کے اشعار
حضرت حسان بن ثابتؓ کا ایک مشہور شعر ہے:
وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنِي
وَأَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ كُلِّ عَيْبٍ
كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ
ترجمہ: “آپ ﷺ سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا، آپ ﷺ سے زیادہ جمیل کوئی عورت نے جنم ہی نہیں دیا۔ آپ ﷺ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے، گویا آپ ﷺ ویسے ہی پیدا ہوئے جیسے آپ نے چاہا۔”
میلاد کا مفهوم
میلاد صرف چراغاں کرنے یا محفل منعقد کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ حضور ﷺ کی آمد پر خوشی کا اظہار ہے۔ یہ اپنے دلوں کو محبتِ رسول ﷺ سے منور کرنے اور اپنی زندگی کو سیرتِ طیبہ کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔ میلاد کا مطلب ہے کہ ہم اپنے نبی ﷺ کو یاد کریں، اُن کے احسانات کو تسلیم کریں اور اُن کی تعلیمات کو پھیلائیں۔
مخالفین کے اعتراضات
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ میلاد النبی ﷺ کا ذکر قرآن یا حدیث میں موجود نہیں۔ یہ اعتراض دراصل غلط فہمی پر مبنی ہے۔ دین میں اصل اصول یہ ہے کہ جس عمل میں خیر ہو اور وہ قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو، اسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔
میلاد کی عبادت
اہلِ علم اس پر متفق ہیں کہ میلاد دراصل شکرگزاری کی ایک شکل ہے۔ جب ہم اپنی ذاتی خوشیوں پر تقریبات منعقد کرتے ہیں تو کیا سب سے بڑی خوشی—یعنی حضور ﷺ کی آمد—پر خوشی منانا جائز نہیں ہوگا؟
حیاتِ رسول اللہ ﷺ
اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں۔ یہ عقیدہ ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ آج بھی امت کو دیکھ رہے ہیں، اور ان کا فیض آج بھی اہلِ ایمان کی زندگیوں کو منور کر رہا ہے۔
محبت، امن اور رواداری
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حضور ﷺ کا راستہ ہمیں محبت، امن اور برداشت سکھاتا ہے۔ میلاد منانے کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم اپنی عملی زندگی میں بھی آپ ﷺ کے راستے پر چلیں۔
میلاد کا معاشرتی پیغام
اس دورِ انتشار میں میلاد النبی ﷺ منانا صرف ایک مذہبی عمل نہیں، بلکہ معاشرتی ضرورت بھی ہے۔ یہ میلاد کی محافل ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری اصل شناخت عشقِ رسول ﷺ ہے۔
قائد ہماری روحانی زندگی کا سہارا
میلاد مصطفی ﷺ منانا ہماری روحانی زندگی کا سہارا، ہمارے ایمان کی تازگی اور ہماری نسلوں کی بقا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل خوشی حضور ﷺ کی آمد ہے۔
امام بوصیریؒ کے اشعار
جیسا کہ امام بوصیری رحمہ اللہ نے قصیدہ بردہ شریف میں عشقِ رسول ﷺ کو یوں بیان کیا ہے:
محمد سید الكونين والثقلين
والفريقين من عرب ومن عجم
هو الحبيب الذي ترجى شفاعته
لكل هول من الأهوال مقتحم
ترجمہ:
“محمد ﷺ سردار ہیں دونوں جہانوں کے اور انسانوں و جنوں کے،
وہی محبوب ہیں جن کی شفاعت کی امید ہے ہر اس مشکل گھڑی میں جو انسان پر آئے۔”
میلاد منانے کا اصل مطلب
یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ میلاد منانے کا مطلب صرف خوشی نہیں بلکہ یہ یقین تازہ کرنا ہے کہ ہماری نجات، ہماری امید اور ہماری اصل پہچان صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ کی محبت اور اُن کی اتباع میں ہے۔