اچانک دھماکہ ہوا اور کارتوس فائر ہو گیا، بندوق کا منہ زمین کی طرف تھا، اللہ نے بچا لیا، دکان کے باہر بیٹھے لوگ دوڑے اندر آئے مگر کوئی کچھ نہ کہہ سکا

کتاب کا سرورق اور رومانس

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 270
ابا جی کے دوست انکل ڈاکٹر اعجاز میر کو کتاب پیش کی تو بولے؛ “بیٹا! کتاب کا سرورق زیادہ دلکش کرو اور اس میں رومانس وغیرہ ہے یا نہیں۔” میں نے جواب دیا؛ “نہیں انکل۔” بولے بیٹا ایسی خشک کتاب کون پڑھے گا۔” میں نے ان کی بات پلے باندھ لی اور اپنی اگلی کتابوں میں کچھ رومانس بھی لکھنا شروع کر دیا۔ ”جہاں سنگ“ لکھی تو اس میں رومانس کا اچھا تڑکا لگایا۔ چچا کو دی تو بولے؛ “میراپتر ن ہن رومانس وی لکھن لگااے۔”

یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کیخلاف جان کا نذرانہ دینے پر سیکیورٹی اہلکاروں کو سلام پیش کرتے ہیں: قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی

بھابھی گھبرانا نہیں

ایک رات نصیر گھر کے کام سے فارغ ہو کر سونے کے لئے گیا اور تھوڑی دیر میں ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ عظمیٰ بیگم کے ذہن میں نہ جانے کہاں سے یہ بات اتر آئی؛ “باہر کوئی لوگ ہیں جو نصیر پر دباؤ ڈال کر دروازے کھلوانے چاہ رہے ہیں۔” میں نے نصیر سے پوچھا کیا بات ہے؟ وہ یہی جواب دیتا تھا؛ “سر! دروازہ کھولیں۔” رات کے گیارہ بارہ بجے کا وقت ہو گا۔ ڈر میں بھی گیا جبکہ عظمیٰ تو جیسے کنفرم تھی باہر کوئی ہے جو نصیر کے ذریعے دروازہ کھلوانا چاہتا تھا۔ میری بھی مت ماری گئی تھی اچانک مجھے خیال آیا میں نے عظمیٰ کے کان میں کہا کہ “اے سی صاحب کو فون کرو۔” اس نے لینڈ نمبر سے فون کیا۔ عشرت صاحب نے ہی فون اٹھا یا۔ عظمیٰ نے صورت حال بیان کی۔ وہ بولے؛ “بھابھی گھبرانا نہیں پولیس اور میں آ رہے ہیں۔” میرے گھر سے ایک عمارت چھوڑ کر تھانہ تھا اور تھانے سے ایک عمارت چھوڑ کے اے سی کا گھر۔ مشکل سے ایک منٹ ہی گزرا ہو گا کہ پولیس کی 2 گاڑیاں اور اے سی بھی آ گئے۔ دروازہ کھولا؛ “تو نصیر کہنے لگا؛ “سر! میں ہی دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔” بہر حال اللہ جانتا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اپنی تسلی کے بعد پولیس واپس چلی گئی۔ عشرت مجھ سے کہنے لگا؛ “میری جان! تیری بندوق کیتھے اے۔” میں نے جواب دیا؛ “سر! میرے کول کوئی بندوق نئیں۔” وہ ناراض ہو تے بولے؛ “یار! کونسا زمانہ ہے اور تمھارے پاس بندوق نہیں۔ کل جاؤ اور بندوق کا لائسنس بنواؤ۔” اگلے روز ہی حسیب اطہر ڈی سی گجرات (یہ کمال کتاب دوست اور شاندار انسان تھے) سے بارہ بور کا لائسنس بنوایا اور درہ کی بنی بارہ بور گن خریدی۔ بعد میں اسے بیچ کر اٹلی کی مشہور زمانہ “بریٹا” کی repeater گن خریدی جو آج بھی میرے پاس ہے اور آج تک اس سے 3 ہی کارتوس فائر ہوئے ہیں۔ 2 ہمارے ایلیٹ کے جوان نے کیے تھے جس نے مجھے گن لوڈ کرنا سکھا ئی تھی اور تیسرا میں نے۔ اس کے بعد سے یہ گن اپنے غلاف میں ہی لپٹی آرام کر رہی ہے۔ اب تو شاید بوقت ضرورت یہ کام ہی نہ کرے (اللہ کبھی ایسا وقت ہی نہ لائے۔) حماقت ہی بریٹا گن خریدنے کی کہانی بنی۔ سناتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا جج آئینی سکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟ عوامی امنگوں اور جمہوریت کیلئے صحیح، لیکن کیا جج آئین ری رائٹ کر سکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر کا استفسار

میوزک سنٹر میں دھماکہ

درہ کی بنی بندوق میں کارتوس نہیں آ رہا تھا۔ میرا اناڑی پن آڑے تھا۔ میں بندوق سمیت مشتاق کے چھوٹے بھائی ذوالفقار (زلفی) کے پاس اُس کے میوزک سٹور محلہ احمد آباد لالہ موسیٰ پہنچ گیا۔ وہ بندوق وغیرہ چلانے کا ماہر تھا۔ کارتوس ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا اور میں اس کی دوکان پر لگے کاؤنٹر پر جھکا اسے یہ کام کرتے دیکھ رہا تھا۔ اچانک دھماکہ ہوا اور کارتوس حادثاتی طور پر فائر ہو گیا۔ اللہ کی کرنی کہ بندوق کا منہ زمین کی طرف تھا۔ بس اللہ نے بچا لیا تھا۔ کئی منٹ تک ہمارے کان دھماکے کی آواز سے گونجتے رہے۔ دوکان کے باہر بیٹھے لوگ دوڑے اندر آئے مگر کوئی کسی سے کچھ نہ کہہ سکا۔ منٹوں بعد اوسان بحال ہوئے تا زلفی نے ماجرہ سنایا۔ درہ کی بنی بندوق واپس کی اور میں نے بریٹا خرید لی۔(جاری ہے)

نوٹ

یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...