سندھ کو سیلاب کا خطرہ، گڈو بیراج پر 12 لاکھ کیوسک پانی آنے کی پیشگوئی، 35 لاکھ سے زائد افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ، سندھ حکومت نے کوئی انتظامات نہیں کئے، خبررساں ایجنسی
سیلاب کا خطرہ سندھ میں
جیکب آباد (آئی این پی) سندھ کو سیلاب کا خطرہ، گڈو بیراج پر 12 لاکھ کیوسک پانی آنے کی پیشگوئی، 35 لاکھ سے زائد افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ، سندھ حکومت نے کوئی انتظامات نہیں کئے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیرِ اعظم نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے کیلئے دنیا بھر میں سفارتی وفد بھیجنے کا فیصلہ کر لیا
وفاقی حکومت کا انتباہ
وفاقی حکومت کے محکمہ فلڈ فورکاسٹ ڈویژن نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ چار روز کے اندر گڈو بیراج پر 12 لاکھ کیوسک پانی آنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق، بیراج کی گنجائش 12 لاکھ کیوسک ہے لیکن اس کا انفراسٹرکچر 1960ء کی دہائی کا پرانا ہے جو بڑی آزمائش کی گھڑی میں کمزور پڑسکتا ہے۔ وفاقی حکومت کے محکمہ فلڈ فورکاسٹ ڈویژن نے سندھ حکومت کو خبردارکرتے ہوئے آگاہ کیا ہے کہ موجودہ صورتحال کسی بڑے سانحے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز سے وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر حسین کی ملاقات
سندھ حکومت کی تیاری کی کمی
اس لیے پہلے سے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کئے جائیں۔ تاہم سندھ حکومت کی طرف سے تاحال کوئی خاطرخواہ تیاری نظر نہیں آئی۔ نہ بھاری مشینری پہنچی ہے، نہ ہی وزیر اعلیٰ سندھ سمیت سندھ حکومت کے کسی وزیر نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے حفاظتی انتظامات کرنے کے بجائے صرف چند وزراء کو فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا آئندہ 2 ماہ میں غزہ کے 75 فیصد علاقے پر قبضے کا گھناونا منصوبہ
پانی کی سطح اور متاثرہ علاقوں کی تفصیلات
ماہرین کے مطابق اگر پانی کی یہ سطح برقرار رہی تو سندھ کے اضلاع کشمور، شکارپور، جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ، دادو کے ساتھ بلوچستان کے علاقے صحبت پور، جعفرآباد، اوستہ محمد اور جھل مگسی بھی شدید متاثر ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق اگر سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو تقریباً 35 لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں اور بڑی تعداد میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ مذکورہ اضلاع کی 50 فیصد تک زرعی زمینیں تباہ اور بڑی تعداد میں مال مویشی مر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بیٹے کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے مفتی کفایت اللّٰہ دوران علاج دم توڑ گئے
ضلعی انتظامیہ کا کردار
ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ جیکب آباد نے ابھی تک کوئی ہنگامی منصوبہ بندی نہیں کی۔ نہ ہی لوگوں کو ریسکیو کے لیے کشتیاں فراہم کی گئیں اور نہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پی ڈی ایم اے سندھ کی جانب سے سندھ کے چند اضلاع میں مشینری بھیجی گئی ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہانیہ عامر کے ٹیلنٹ سے خوفزدہ بھارتیوں کو بشریٰ انصاری نے للکار دیا
سماجی تنظیموں کی کوششیں
سماجی تنظیم سی ڈی ایف نے گزشتہ سال ڈی ڈی ایم اے جیکب آباد کو چار کشتیاں فراہم کی تھیں مگر اب تک مزید کوئی اقدام سامنے نہیں آئے ہیں۔ فلڈ فورکاسٹ ڈویژن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ پانی سیلابی کیفیت اختیار نہ بھی کرے تو بھی کچے کے علاقے شدید متاثر ہوں گے، جہاں تقریباً 10 لاکھ افراد بستے ہیں جن کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
کچے کے علاقوں کی تفصیلات
کچے کے علاقے جو سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں ان میں رائٹ بیلٹ پر کشمور، شکارپور، سکھر، لاڑکانہ، دادو، جامشورو، ٹھٹہ، گھوٹکی جبکہ لفٹ بیلٹ پر خیرپور، نوشہروفیروز، مٹیاری، حیدرآباد اور سجاول شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو سندھ اور بلوچستان کے بڑے حصے زیر آب آسکتے ہیں، اور اس سے نہ صرف انسانی جانیں بلکہ معیشت، زراعت اور مویشی بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔








