قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی، وکلاء اور دانشور طبقوں کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حقائق مختلف اور پریشانی کا سبب ہیں۔

مصنف کی رائے
رانا امیر احمد خاں
قسط: 140
رانا امیر احمد خاں ایڈووکیٹ نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے خوشامد اور باربار جھوٹ بول کر کیا حاصل کیا ہے؟ گزشتہ چار سال سے امریکہ پاکستان کو اسلحہ و ہتھیاروں کی قیمت ادا کرنے کے باوجود F6 طیارے فروخت کرنے سے بھی انکاری ہے۔ پاکستان کے لئے یہ زیادہ سود مند ہو گا کہ ہم فوری طور پر ایٹمی دھماکہ کر کے عالمی ایٹمی کلب کی رکنیت حاصل کریں۔ اگر اسرائیل جیسے چھوٹے ممالک ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو دنیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے پاکستان جیسے مقابلتاً بڑے اور باوسائل اسلامی ممالک کو بھی ایٹمی قوت بننے سے نہیں روکا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ بار بار پاکستان کی تعریفیں کیوں کر رہاہے؟ اعزاز سید کا وی لاگ میں انکشاف
عدلیہ کی آزادی کی ضرورت
مشترکہ بیان 212 وکلاء لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن لاہور
حکومت عدلیہ کی آزادی میں مداخلت سے باز آ جائے
پچھلے کچھ دنوں سے تواتر کے ساتھ یہ بات اخبارات میں آ رہی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ کو مختلف طریقوں سے ہراساں اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں دھمکیاں دی گئیں، ان کے ایک داماد کے مکان پر چھاپہ مارا گیا اور اسے ملازمت سے معطل کر دیا گیا جس کے خلاف اس نے کراچی ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے جبکہ دوسرے داماد کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔ حزبِ مخالف کے کئی اسیر رہنماؤں کی ضمانت کی درخواستیں سال بھر عدالتوں میں زیرفیصلہ رہیں۔ ایک جج کو محض اس بنا ء پر چند گھنٹے بعد جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا کہ اس نے حزبِ مخالف کے لیڈر کے والد کی عبوری ضمانت منظور کی اور اب تازہ ترین واقعہ جو پریس کے ذریعے سامنے آیا ہے اور جس پر چیف جسٹسز کی کمیٹی نے اپنا ردِعمل ظاہر کیا ہے وہ یہ کہ پنجاب میں انتظامیہ میں سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر کئے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے مائیکل سیلر کو سٹریٹجک کرپٹو ایڈوائزر مقرر کردیا
قانون کی حکمرانی اور وکلاء کی تشویش
یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی ایک آنکھ نہیں بھاتی، محض ٹیلی ویژن اور میڈیا پر یہ کہہ دینا کہ عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے اس سے وکلاء اور دانشور طبقوں کو گمراہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حقائق اس سے مختلف ہیں اور یہ صورت حال اہل ملک اور بالخصوص باشعور طبقے اور وکلاء کے لئے گہری پریشانی کا باعث ہے۔ لہذا ہم درج ذیل ممبران لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن حکومت کے اس رویئے کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ بطور حکمران اچھی روایات قائم کریں عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے راستے میں حائل نہ ہوں تاکہ یہی اچھی روایات بوقت ضرورت ان کے کام بھی آ سکے۔
رائے قلم بند کی گئی
رانا امیر احمد خاں (ایڈووکیٹ ہائی کورٹ)
14 نابھہ روڈ، لاہور
دستخط: 212 ایڈوکیٹ صاحبان لاہور ہائی کورٹ لاہور
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔