افغان حکومت نے لڑکیوں کی محبت اور دوستی کو بیان کرنے والی رومانوی شاعری پر پابندی لگا دی

افغانستان میں شاعری پر نئی پابندیاں
کابل(ڈیلی پاکستان آن لائن) افغانستان میں طالبان حکومت نے شاعری اور ادبی محافل کے سخت ضابطہ اخلاق کو نافذ کردیا جس کی خلاف ورزی پر سزا بھی ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہیرا اور اسد کی سروس ٹائرز پنجاب اوپن ٹینس چیمپئن شپ میں شاندار فتوحات
شعری قوانین کا اعلان
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امیرِ طالبان ہبتہ اللہ اخوندزادہ کے حکم پر شعبہ امر بالمعروف و نہی المنکر نے نئے قانون "شاعری و مشاعروں کا ضابطہ اخلاق" کےنفاذ کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز کا انسانی ہمدردی مشن پر وار، امدادی کشتی حنظلہ پر قبضہ
پابندیاں اور شرائط
اس قانون کے تحت شاعروں پر محبت، دوستی اور آزادیٔ اظہار رائے جیسے موضوعات پر لکھنے پر پابندی عائد ہوگی جبکہ ہر شاعر کو طالبان قیادت کی تعریف اور مخصوص ہدایات پر عمل کرنے کا پابند بھی بنایا گیا ہے۔ وزارتِ انصاف کا کہنا ہے کہ یہ قانون طالبان کے امیر ہبتہ اللہ اخوندزادہ نے دستخط کے بعد نافذ کیا گیا ہے جو 13 دفعات پر مشتمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چکوال :پرانی دشمنی کا شاخسانہ ، خاتون اپنے بھائی اور بیٹے سمیت قتل
نئے قوانین کے اثرات
وزارتِ انصاف کی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ اس کے تحت کسی بھی شاعر کو لڑکوں اور لڑکیوں کی دوستی یا محبت کو بیان کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح طالبان کے سپریم لیڈر پر تنقید یا ان کی مخالفت بھی سختی سے ممنوع ہو گی۔
یہ بھی پڑھیں: ماپوسا کی یلغار اور پاکستان کا کلین سویپ سے ایک قدم پیچھے ہانپنا
مجرم قرار دی جانے والی سرگرمیاں
علاوہ ازیں اسلامی شعائر کی توہین، لسانی یا نسلی تقسیم کی حوصلہ افزائی، یا غیر اخلاقی رسوم کو فروغ دینا بھی جرم قرار پائے گا۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد منتظمین کو تمام مشاعرے اور شعری نشستوں کو وزارت اطلاعات و ثقافت سے اجازت نامہ لینا لازمی ہوگا۔ طالبان حکام اور علما پر مشتمل وزارت کی ایک جائزہ کمیٹی پروگرام سے پہلے اور بعد میں سنسر کرسکے گی اور کسی بھی منفی مواد کو حذف کرنے کا اختیار رکھے گی。
ادبی روایات پر اثرات
جس پر افغان شعرا اور ادیبوں نے ان پابندیوں کو صدیوں پرانی ادبی روایت کے خاتمے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایک جلاوطنی اختیار کرنے والے افغان شاعر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان چاہتے ہیں کہ شاعری کو انسانی جذبات سے خالی کرکے محض سیاسی پروپیگنڈا بنا دیا جائے۔ کابل میں موجود ایک ثقافتی تجزیہ کار نے بتایا کہ یہ اقدامات افغانستان میں "آزاد ادبی اظہار کے خاتمے" کا اعلان ہیں۔