ہائی کورٹ کا فل کورٹ اجلاس آج، 2 ججز نے سوالات اٹھا دیئے

اسلام آباد ہائیکورٹ کا فل کورٹ اجلاس

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ کا فل کورٹ اجلاس آج طلب کیا گیا ہے، اسی دوران 2 ججوں نے ہائی کورٹ میں شفافیت کی کمی پر سنگین سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈکوچ کے عہدے سے استعفیٰ کیوں دیا؟ جیسن گلیسپی نے انٹرویو میں بتا دیا

ججز کا خط

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق جسٹس بابر ستار اور جسٹس ایاز اسحاق خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کو الگ الگ خط لکھے ہیں۔

ان خطوط کی کاپی دیگر ججوں کو بھی بھیجی گئی ہے، دونوں ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ پر زور دیا ہے کہ وہ فل کورٹ اجلاس میں ان نکات کو شامل کریں جو خطوط میں اجاگر کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: منگل اور بدھ کی رات دریائے سندھ میں سیلاب کا خدشہ، انتظامیہ کو متحرک رہنے کی ہدایت جاری

کیسز کی فکسیشن اور شفافیت

جسٹس بابر ستار نے اپنے خط میں کیسز کی فکسیشن اور روسٹر کی تیاری میں شفافیت اور منطق کی کمی کو اجاگر کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ معتبر ادارتی اصولوں کے برعکس آپ نے ایسے روسٹر بنائے ہیں جن میں سینئر ججوں، جن میں سینئر جج محسن اختر کیانی بھی شامل تھے، کو ڈویژنل بنچوں کی سربراہی سے خارج کیا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا کیسز کی فکسیشن چیف جسٹس کی خواہشات پر مبنی ہونی چاہیے یا اس میں شفافیت ہونی چاہیے؟ ہم اپنے فیصلوں میں ہر روز لکھتے ہیں کہ سرکاری اہلکار بادشاہ نہیں ہیں اور ان کے انتظامی اختیارات نہ تو بے لگام ہیں اور نہ ہی ان کا استعمال پر فریب انداز میں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: نوجوانوں کی تربیت اور قومی دفاع

کاز لسٹ میں شفافیت کی کمی

انہوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ آپ کی نگرانی میں جاری کردہ کاز لسٹیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کیسز زیادہ تر منتقل کیے گئے ججوں اور ایڈیشنل ججوں کو دیئے جاتے ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان مستقل ججوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جو آپ کی اسلام آباد ہائیکورٹ منتقلی کو ناپسند کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی جانب سے ممکنہ حملے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، وزیر دفاع وینزویلا

ماتحت عدلیہ کی نگرانی

جسٹس بابر ستار نے ماتحت عدلیہ پر نگرانی اور کنٹرول کی ناکامی کی طرف بھی اشارہ کیا، انہوں نے کہا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ اپنی ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور کنٹرول کی ذمہ داری نبھا رہی ہے؟

انہوں نے چیف جسٹس ہائیکورٹ کو بتایا کہ آپ کی نگرانی میں ہم نے دیکھا ہے کہ آفس عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاز لسٹ جاری کرنے سے انکار کردیتا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسز کو ایک عدالت کے ڈاکیٹ سے دوسری عدالت میں منتقل کیا جاتا ہے حالانکہ چیف جسٹس کے دفتر کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں آٹھویں جماعت کے بورڈ امتحانات بحال کرنے کا فیصلہ

عدالتی آزادی کی بحث

انہوں نے کہا یہ کچھ ججوں کو غیر متعلقہ بنانے میں کامیاب چالیں ہو سکتی ہیں، ہماری عدالتی تاریخ ایسی ہی بدنیتی پر مبنی کارروائیوں سے بھری پڑی ہے جو آمرانہ ادوار میں پھیلی تھیں لیکن کیا عدالتی آزادی کو ایسے سبوتاژ کیا جانا جائز ہے؟

خط میں ان کمیٹیوں کی تشکیل پر بھی اعتراض کیا گیا ہے جو ہائی کورٹ کے اجتماعی کردار کو نقصان پہنچا رہی ہیں، جسٹس ستار نے چیف جسٹس کو بتایا کہ انہوں نے انتظامی کمیٹیوں میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو سینئر ججوں کو خارج کیا ہے۔

ماہرین کی رائے

اسی حوالے سے سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کا روسٹر کا ماسٹر ہونے کا اختیار کوئی مطلق اختیار نہیں بلکہ ایک آئینی امانت ہے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...