ساری دنیا میں ریلوے کی بے مثال ترقی کے باوجود ہم نئی پٹریاں بچھانا تو درکنار انگریز حکومت سے ورثے میں ملی لائنوں کی حفاظت بھی نہ کر سکے۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 237

باب 12: برانچ لائنیں

یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ساری دنیا میں ریلوے کی بے مثال ترقی ہونے کے باوجود پاکستانی ریلوے کا محکمہ اچھی تو دور کی بات ہے، کوئی واجب کارکردگی بھی نہ دکھا سکا۔ نئی ریل کی پٹریاں بچھانا تو درکنار یہ لوگ اپنی عدم توجہی کی وجہ سے انگریز حکومت سے ورثے میں ملی ہوئی لائنوں کی حفاظت بھی نہ کر سکے۔ محکمے کے افسروں کے غیرسنجیدہ رویوں اور کچھ ملازمین کی سازشوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے زیادہ تر برانچ لائنیں ایک ایک کر کے بند ہوتی چلی گئیں اور محکمہ بے بسی سے بند مٹھی سے ریت کو گرتا دیکھ کر بھی کچھ نہ کر سکا۔

بدعنوانی اور سازشیں

اس میں سے کچھ گاڑیاں تو بعض بدعنوان افسروں اور نجی بسوں کے مالکان کی ملی بھگت سے رشوت لے دے کر کسی بہانے سے بند کر دی گئیں یا پھر کچھ گاڑیوں کے اوقات کار اس طرح ترتیب دے دئیے گئے کہ ان پر عمل کرنا کم از کم عام مسافروں کے لیے تو ممکن نہ تھا۔ مثلاً تین چار گھنٹے کے سفر والی ریل گاڑی، جو دن کے وقت روانہ ہوتی تھی اور دن ہی میں مسافروں کو اپنی منزل پر پہنچا دیتی تھی، اْس کی روانگی کا وقت بدل کر رات کو 2 بجے رکھ دیا گیا۔ اب اس وقت بھلا کون سا مسافر اسٹیشن پر پہنچے گا؟ نتیجتاً وہ رفتہ رفتہ اْس گاڑی سے منہ موڑتے چلے گئے اور اس بْنی گئی سازش کے مطابق وہ اب بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہو جاتے جس سے گاڑی میں سواریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ جاتی تھی۔ کچھ عرصے بعد اسی بات کو جواز بنا کر وہ گاڑی مستقل طور پر ہی بند کر دی جاتی تھی۔

تکنیکی مسائل اور غفلت

کچھ ریلوے لائنیں اور گاڑیاں تکنیکی عملے کی مجرمانہ بے پروائی اور اناڑی پن کی بنا ء پر اپنے انجام کو پہنچیں۔ انجنوں اور بوگیوں کی بروقت مرمت نہ کی جاتی۔ جس کی وجہ سے وہ رفتہ رفتہ بے کار ہو کر کھڑی ہوتی گئیں۔ انجنوں میں غیر معیاری تیل اور کل پرزے استعمال کیے گئے، جس سے ان کی مشینوں کو بے حد نقصان پہنچا اور وہ ناکارہ ہو گئے۔ پھران لائنوں پر گاڑیاں بغیر کسی معقول وجہ کے کئی کئی گھنٹے کی غیر معمولی تاخیر سے سفر کرنے لگیں۔

بوگیوں کی دیکھ بھال

بوگیوں کی دیکھ بھال کا عملہ بھی اپنا کام دل جمعی سے نہ کرتا۔ گلی سڑی پچھلی صدی کی بوگیاں ان لائنوں پر روانہ کی جاتیں جس میں بسا اوقات پنکھے یا روشنی تک کا انتظام نہ ہوتا تھا اور نہ ہی بیت الخلاؤں کی کوئی اچھی حالت تھی، ان کی ٹنکیوں میں پانی تک نہ بھرا جاتا تھا۔ فرش اْکھڑے ہوئے ہوتے تھے جن میں سے نیچے دوڑتی ہوئی پٹریاں صاف نظر آتی تھیں۔ یہ اور ایسی ہی کئی شکایات کی بدولت مسافر آہستہ آہستہ ریل گاڑیوں سے دور ہوتے چلے گئے اور اس کے بجائے بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے کو ترجیح دینے لگے۔ قدرتی بات ہے اس سے ریلوے کے محکمہ کو اتنا نقصان ہو جاتا تھا کہ ساری گاڑی کے ٹکٹوں کی فروخت سے ایندھن کا خرچ بھی پورا نہ ہوتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ فنڈ کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر اس برانچ لائن کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...