لاہور کا رہنے والا عارف طفیل المعروف “میجر” کمال انسان تھا، جس بات کو ہاں کہہ دی کوئی نہ نہیں کرا سکتا تھا اور اگر نہ کر دی تو کوئی ہاں نہیں کرا سکتا تھا۔

مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 278
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کی سیاسی فرعونیت کی وجہ سے معاملات حل نہیں ہو رہے، طارق فضل چوہدری
حلقہ بندی کی ذمہ داری
اے ڈی ایل جی شیخوپورہ امتیاز کرمانی شریف اور بھلے مانس تھے۔ انہوں نے تحصیل فیروز والا کی حلقہ بندی کی ذمہ داری میرے سپرد کر دی تھی جو مجھے احسن انداز میں وقت مقررہ پر ختم کرنی تھی۔ ابتدائی حلقہ بندی کی تجاویز عوام الناس کی اطلاع کے لیے نمایاں جگہوں پر آویزاں کی جاتی تھیں۔ مقررہ مدت میں ان پر اعتراضات اور تجاویز وصول کی جاتیں۔ مقررہ تاریخ پر مجاز اتھارٹی ان اعتراضات اور تجاویز کی سماعت کرتی اور اتھارٹی کے فیصلوں کی روشنی میں حتمی حلقہ بندی کی جاتی اور برائے نوٹیفیکیشن حکومت کو ارسال کر دی جاتی تھی۔ آج بھی یہی طریقہ کار ہے مگر اب حلقہ بندی الیکشن کمیشن کرتا ہے۔ حلقہ بندی کے بعد ہی الیکشن کا شیڈول جاری ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بلال بن سعید کو پاکستان ورچوئل اثاثہ ریگولیٹری اتھارٹی کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا
تحصیل فیروز والا
تحصیل فیروز والا میں فیروز والا کے علاوہ چار دیگر ترقیاتی مراکز موجود ہیں۔ مرید کے؛ عارف طفیل پراجیکٹ منیجر تھے۔ نارنگ منڈی میں محمد افضل پراجیکٹ منیجر تھے (رینکر، شریف مگر سمجھ دار افسر)۔ فیکٹری ایریا کوٹ عبدالمالک ملک غلام رسول پراجیکٹ منیجر تھے۔ رینکر مگر سمجھ دار افسر اور مقامی ہونے کی وجہ سے علاقے سے اچھی واقفیت تھی۔ شرق پور شریف کا اضافی چارج میرے پاس تھا۔ فیروزوالا سے اس کا فاصلہ تقریباً تیس کلو میٹر ہے۔ یہ جگہ حضرت شیر محمد شرقپوری اور تحصیل شرقپور کے مخصوص گلاب جامن، اسٹرابری اور الیچی کی پیداوار کے لیے مشہور تھی۔ میں ہفتے میں دو دن یہاں جاتا تھا۔ یہاں کے عملے میں محمد ارشد اکاؤنٹس کلرک سمجھ دار مگر تیز آدمی تھا۔ شیخ محمد رفیق بہت سمجھ دار اور باعتماد سیکرٹری یونین کونسل تھا (اب ریٹائر ہو چکا ہے)۔ دیگر سیکرٹریوں میں مزمل، محسن، ادریس نوجوان مگر کام چور تھے جبکہ کریم بخش اور شفیق نسبتاً بہتر اور تجربہ کار تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سونا ایک ہزار 500 روپے مہنگا، فی تولہ قیمت 3 لاکھ 54 ہزار 500 روپے ہو گئی
بلدیاتی الیکشن کے طریقہ کار
اس بلدیاتی الیکشن کی خاص بات "ملٹی وارڈ" انتخاب تھا یعنی کسی امیدوار کا دوسرے امیدوار سے براہ راست مقابلہ نہ تھا (جبکہ ناظم اور نائب ناظم کا انتخاب بحیثیت pair ہونا تھا نہ کہ الگ الگ)۔ مثلاً اگر چھ لوگوں کو منتخب ہونا تھا اور کل امیدوار دس تھے تو پہلے چھ نمبرز پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے منتخب قرار پاتے۔ ایسا ہی طریقہ کار انتخاب خواتین کے لیے بھی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ کا خطرہ، لاہور کی لڑکی نے جنگ کی بھرپور شاپنگ کر کے تیاری کو یقینی بنا لیا۔
عارف طفیل کی شخصیت
میرا یار عارف طفیل؛ لاہور سمن آباد کا رہنے والا، عارف طفیل المعروف "میجر" (ان کی بڑی بڑی مونچھوں اور لمبے قد کی وجہ سے دوست انہیں میجر کہتے تھے) کمال انسان تھا۔ جس بات کو ہاں کہہ دی کوئی نہیں کرا سکتا تھا اور اگر نہ کر دی تو کوئی ہاں نہیں کرا سکتا تھا۔ یہ آپ کی قسمت کہ وہ درست بات پر اڑا یا غلط پر۔ میں نے اور عارف نے قریب قریب سٹیشنز پر نوکری بھی کی جیسے میں کھاریاں تھا تو وہ سرائے عالم گیر، میں فیروز والا اور یہ مرید کے، میں لاہور اور یہ شیخوپورہ وغیرہ۔ مخلص، وضع دار، بھلے مانس، سمجھ دار افسر اور یار دوست انسان۔ ان کی والدہ بھی بڑے ظرف والی خاتون تھیں۔ ہمیں (مجھے اور میری بیگم) کو اپنے بچوں کی طرح ہی پیار کرتی تھیں۔ (جاری ہے)
کتاب کی اشاعت
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔