بے شمار چھوٹی بڑی برانچ لائنیں تھیں جو چاروں صوبوں میں پھیلی ہوئی تھیں،بیشتر بند ہو چکی ہیں جو ابھی چل بھی رہی ہیں وہ آخری ہچکیاں لے رہی ہیں

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 238
اہم برانچ لائنیں
ویسے تو پاکستان کے حصے میں بے شمار چھوٹی بڑی برانچ لائنیں آئیں تھیں لیکن جو جانی پہچانی اور زیادہ مشہور ہوئیں، ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
- لاڑکانہ
- جیکب آباد
- حیدرآباد
- میرپور خاص
- کھوکھرا پار
- مونا بھاؤ
- پشاور
- لنڈی کوتل
- خیبر ریلوے
- راولپنڈی
- کوہاٹ
- لاہور
- فیصل آباد
- خانیوال
- کوئٹہ
- زاہدان (ایران)
- چمن
- قصور
- پاکپتن
- لودھراں
- واہگہ
- اٹاری
- سمہ سٹہ
- بہاولنگر
- فورٹ عباس
- یزمان
- امروکا
- بوستان
- ژوب
- سرگودھا
ان کے علاوہ اور بھی بے شمار چھوٹی بڑی برانچ لائنیں تھیں جو پاکستان کے چاروں صوبوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ ان میں سے بیشتر بند ہو چکی ہیں۔ اور جو ابھی چل بھی رہی ہیں تو وہ بھی آخری ہچکیاں لے رہی ہیں۔
سفر کا تبدیل ہوتا منظر
لوگ اب اپنا زیادہ تر سفر بسوں اور ویگنوں کے ذریعے کرنے لگے ہیں کیونکہ ملک میں وسیع و عریض سڑکوں اور نقل و حرکت کے جدید ذرائع آ جانے سے وقت اور راستے سمٹ گئے ہیں اور بسیں اب ان کے گاؤں یا گھروں کے پاس سے گزرتی ہیں۔ اس سے پہلے ان کو ریل گاڑیوں کے دیہاتی اسٹیشنوں تک پہنچنے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل، بیل گاڑیوں یا اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرنا پڑتا تھا اور فاصلہ بھی ایسا، کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ پھر اسٹیشن پر گاڑی لیٹ ہو جانے کی صورت میں، خصوصاً رات کے وقت، انہیں وہیں ٹھہر کر پو پھٹنے تک طویل انتظار کرنا پڑتا تھا۔
مال گاڑیوں کا مستقبل
اس طرح مال گاڑیوں میں جو سامان بھیجا جاتا تھا وہ بھی بند ہو گیا کیونکہ تیز رفتار ٹرک اور ٹریلر آ گئے تھے۔ مواصلات کا نظام بہتر ہونے کی وجہ سے تجارت کا سارا سامان اب مال گاڑیوں میں جانے کے بجائے ٹریلروں اور ٹرکوں میں جانے لگا جو اگلے ہی دن ہی اسے مطلوبہ مقام پر پہنچا دیتے، جبکہ مال گاڑیوں میں بھیجے گئے سامان کو پہنچانے میں کئی کئی روز لگ جاتے تھے۔ پھر اسٹیشن سے مال وصول کر کے گوداموں میں پہنچایا جاتا جبکہ ٹریلر سیدھا ہی وصول کنندہ کے گودام کے دروازے میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔
نتیجہ
نتیجہ یہ ہوا کہ محکمہ ریلوے نے آہستہ آہستہ ان غیر منافع بخش ریلوے لائنوں پر گاڑیوں کی تعداد کو محدود یا بند کر دیا۔ اسٹیشن سونے ہو گئے، گاڑیوں کی گھڑگھڑاہٹ، انجنوں کی پھنکار، گھنٹیاں، سیٹیاں اور ہٹو بچو کی صدائیں سب کچھ ہی خلاؤں میں کہیں گم ہوتا چلا گیا۔ بند ہو جانے والی لائن کے ساتھ ہی اس پر قائم تمام اسٹیشن ایک ساتھ ہی مر جاتے تھے اور ہر سو گہری خاموشی چھا جاتی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔