دریا کی خاموشی میں خطرے کی آہٹ اور بزرگ بابا جی

چنار پور: ایک گاؤں کی کہانی

چنار پور، ایک ایسا گاؤں تھا جہاں وقت گویا رُک سا گیا تھا۔ صدیوں پرانا طرزِ زندگی، مٹی کی خوشبو، شاموں کی چائے، مسجد کی اذان، اور کنارے بہتا وہ پُراسرار دریا — سب کچھ ایک دل کو چھو لینے والے منظر میں ڈھلا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی پر ٹارچر کیا گیا، سلمان اکرم راجہ

بابا امام دین: گاؤں کے بزرگ

بابا امام دین اس گاؤں کے سب سے بزرگ شخص تھے۔ عمر ستر کے قریب، جھریوں سے بھرا چہرہ، سفید داڑھی ، اور دھیمی مگر گونج دار آواز۔ کہتے تھے، "میں نے اس دریا کو ہنستے بھی دیکھا ہے، اور روتے بھی۔"

لوگ اُن کی باتوں کو عزت تو دیتے، مگر دل میں سوچتے: "بابا امام دین تو پرانی باتیں کرتے ہیں، بھلا دریا بھی کبھی ہنستا یا روتا ہے؟"

یہ بھی پڑھیں: 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان

دریا کی خاموشی

لیکن کوئی نہ جانتا تھا کہ بابا امام دین جو بھی کہتا ہے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہے۔ جیسے ہی جولائی کا مہینہ آیا تو بارشیں معمول سے زیادہ ہونے لگیں۔ پہاڑیوں سے آنے والا پانی دریا میں گرنے لگا اور اسکی سطح آہستہ آہستہ بلند ہونے لگی۔ بابا جی روز پنچایت میں بیٹھتے اور تنبیہ کرتے: "یہ دریا خاموش ہے، لیکن میں نے اس کی خاموشی میں خطرے کی آہٹ سن لی ہے۔ بند باندھو، سکول کو محفوظ مقام پر منتقل کرو۔"

یہ بھی پڑھیں: فیصل آباد میں بچوں اور بچیوں سے اسلحہ کے زور پر زیادتی کا ملزم سی سی ڈی اہلکاروں سے مقابلے میں ہلاک

خطرے کی رات

لیکن کوئی خاص اقدام نہ ہوا۔ گاؤں کے نوجوان، خاص طور پر فیضان، جو اب پنچایت کا نیا رکن بنا تھا، سمجھتا تھا کہ بابا جی کی باتیں صرف پرانی یادیں ہیں۔ پھر سب کی زندگی میں وہ رات بھی آئی جو چاندنی سے خالی تھی، جیسے آسمان بھی خالی آنکھوں سے گاؤں کو دیکھ رہا ہو۔ پہلے ہلکی بوندا باندی شروع ہوئی، پھر اچانک جیسے آسمان کا صبر ختم ہو گیا۔

بجلی کڑکی، بادل گرجے، اور دریا نے اپنا رُخ بدلا۔ دریا نے پلک جھپکتے میں اپنا دائرہ توڑ دیا، اور پانی، مٹی، درخت، سب کو بہا لے جانے لگا۔ لوگ گھبرا کر گھروں سے نکلے، کسی کے ہاتھ میں قرآن، کسی کے ہاتھ میں بچہ، کسی نے صرف چیخ ماری اور پانی میں گم ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم گرم اور خشک، کچھ مقامات پر بارش کا امکان

بابا جی کی ہمت

مسجد کے امام نے اذان دی، بابا جی نے لاوڈ اسپیکر سے آواز دی: "مدرسے کی چھت پر آ جاؤ، وہ سب سے اونچی جگہ ہے۔ خدا کے واسطے، بچوں اور بوڑھوں کو بچاؤ!"

بابا جی خود ہر گلی میں گئے، چیخ چیخ کر دروازے کھٹکھٹاتے رہے۔ ایک جگہ، زارا — چھ سال کی معصوم بچی — اپنے گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ اس کی ماں اپنی بیمار ماں کو بچانے نکلی تھی اور خود پانی میں بہ گئی تھی۔ زارا خوف سے کانپ رہی تھی، دروازہ بند، پانی دروازے تک۔

بابا جی دروازہ توڑنے لگے، لوگ چلّائے: "بابا جی، اب مت جاؤ! پانی بہت تیز ہے!" بابا جی نے پلٹ کر کہا: "اگر ایک بھی بچہ بھی سیلاب میں پھنس گیا، تو ہم سب ہار گئے۔"

بابا جی نے دروازہ توڑا، زارا کو کندھے پر بٹھایا، اور بہتے پانی سے لڑتے ہوئے مدرسے کی طرف روانہ ہوئے۔ پانی کبھی سینے تک، کبھی گلے تک، لیکن بابا جی کے قدم نہ رُکے۔

جب وہ مدرسے کی سیڑھیوں پر پہنچے، تو ان کے چہرے پر سکون سا تھا۔ انہوں نے زارا کو اوپر چڑھایا، خود گر پڑے۔ ان کی سانس تھم چکی تھی لیکن مرنے سے پہلے وہ زارا کے یہ الفاظ سن چکے تھے جب وہ چلا چلا کر روتے ہوئے کہہ رہی تھی: "بابا جی، آپ میرے ابو جیسے ہو۔"

یہ بھی پڑھیں: جنوبی پنجاب کے 15 ہزار سے زائد نوجوانوں کی پی ایم وائی پی-لاہور قلندرز ٹرائلز میں بھرپور شرکت

نئی صبح کا آغاز

صبح جب پانی اتر چکا تھا، چنار پور کا نقشہ بدل چکا تھا۔ کچھ گھر ملبے میں، کچھ رشتے مٹی میں، کچھ خواب پانی میں ڈوب چکے تھے لیکن مدرسے کی چھت پر جو 43 جانیں بچی تھیں، وہ سب گواہ تھیں کہ ایک بوڑھے شخص نے دریا سے جنگ لڑی اور جیت گئے۔ گاؤں والوں نے بعد میں دریا کنارے ایک مٹی کا مزار بنایا۔ وہاں نہ سنگِ مرمر ہے، نہ روشنیاں، لیکن فقط ایک کتبہ لگا ہوا ہے: "یہ اس شخص کا مزار ہے جس نے بہادری سے اس گاؤں کو بچایا۔"

یہ بھی پڑھیں: کے پی میں دہشتگردی کی حالت انتہائی خطرناک، حکومت کی بے حسی پر اے این پی کا احتجاج!

نوٹ

یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں، اس میں بیان کیے گئے نام بھی فرضی ہیں، مماثلت محض حسن اتفاق ہوگا۔

اپنی تحاریر بھیجیں

اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس '[email protected]' یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...