1965 میں پاک بحریہ کی وہ کارروائی جس نے بھارتی آبی فوج کے اوسان ہی خطا کردیے تھے

پاک بحریہ کا دوارکہ آپریشن
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاک بھارت کی سنہ65 کی جنگ کے دوران پاک بحریہ کی جانب سے تشکیل دیے گئے دوارکہ آپریشن میں نہ صرف پاکستانی سرفروشوں نے دشمن کے کراچی کی جانب ممکنہ ناپاک ارادوں اور مہم جوئی کو ناکام بنایا بلکہ بھارتی آبی فوج کے اوسوں ہی خطا کردیے تھے۔ پاک بحریہ کی جانب سے اس آپریشن کو سومناتھ مندر پر محمود غزنوی کے حملوں کا تسلسل قرار دیا جاتا ہے، فرق بس یہ ہے کہ 18 ویں حملے میں تلوار اور تیر جبکہ آپریشن دوارکہ میں بھاری بھرکم توپیں اور گولہ بارود استعمال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی چوک آپریشن، بشریٰ بی بی کو اسلام آبادسے نکلتے ہوئے پولیس پارٹی نے شناخت کر لیا لیکن پھر گرفتار کیوں نہ کیا گیا؟ تہلکہ خیز انکشاف
آپریشن کی تفصیلات
سامان حرب سے لیس 6 بحری جنگی جہاز ڈسٹر ائیرفریگیٹس کے تابڑ توڑ حملوں کے دوران دشمن ملک بھارت نے صرف اپنی بربادی کا تماشا دیکھا۔ اس اہم مشن میں سب میرین پی این ایس غازی بھی سمندر کی 400 فٹ گہرائی میں موجود تھی۔ اس پیچیدہ آپریشن کے لیے پاک بحریہ کے جری افسران وجوان گہرے سمندرمیں 200 ناٹیکل مائل (120 میل) کا طویل سفر طے کر کے بھارتی حدود میں داخل ہوئے۔ آپریشن دوارکہ کا کوڈ نام سومناتھ تھا، اس مشن کے ذریعے پاک بحریہ پہلی مرتبہ دشمن فوج سے برسرپیکارہوئی۔ تیکنیکی اعتبار سے ایک دشوار سمندری آپریشن کے دوران پاک بحریہ کے جنگی جہازوں نے ساڑھے تین ہزار پاؤنڈز بارود کے گولے بیک وقت مشن پر داغ کر دشمن ملک کے اہم تنصیبات کے پرخچے اڑادیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر میں سروس سٹیشنز پر واٹر ری سائیکلنگ پلانٹس لگانے کا حکم
بھارتی بحری اثاثوں کا ناکام ہونا
ممبئی کی بندرگاہ موجود پاک بحریہ کی آبدوز پی این ایس غازی بھارتی ایئرکرافٹ کیریئر سمیت دیگر بحری اثاثوں کے راہ کی رکاوٹ بنی رہی۔ سن 65 کی پاک، بھارت جنگ کے دوران جب پاکستانی افواج مختلف بری اور فضائی محاذوں پر دشمن ملک سے برسر پیکار تھی، اسی جنگی ماحول کے دوران 7 اور 8 ستمبر کی ایک تاریک رات کو جب سمندرمیں ہر جانب گہرا سکوت تاری تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فخر زمان سے متعلق قومی ٹیم کے کپتان محمد رضوان کا بیان سامنے آگیا
حملے کی اطلاع
ایسے میں پاک بحریہ کے جنگی بیڑے میں شامل 6 دیوہیکل بحری جنگی جہاز 200 ناٹیکل مائل (120 میل) کا طویل سمندری سفر طے کرنے کے بعد دشمن کے دانت کھٹے کرنے کے لیے سمندر کے سینے پر کسی پہاڑ کی مانند موجود تھے۔ ان تباہ کن جہازوں کے ہمراہ 400 فٹ کی گہرائی میں آبدوز پی این ایس غازی بھی موجود تھی، آپریشن دوارکہ کو سومناتھ مندر پر 18 واں حملہ بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ سومناتھ کا مندر اسی ساحلی علاقے میں واقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور سے لنڈی کوتل تک پہنچنے میں گاڑی 4 گھنٹے تو آرام سے لگا ہی دیتی تھی، مجموعی طور پر اس کی رفتار ایک عام سے سائیکل سوارجتنی ہی ہوتی تھی۔
آپریشن کی اہمیت
پاک بحریہ کی جانب سے اس آپریشن کا آغاز انتہائی ناگزیر تھاکیونکہ جنگی محاذوں پر بھارت سے اڑنے والے جنگی بمبار جہازوں کو دوارکہ ریڈار سے تکنیکی معاونت حاصل تھی، یہ مشن اس لحاظ سے بھی ضروری تھا کہ اب بھارتی سورماوں نے کراچی پر مہم جوئی کے سپنے دیکھنے شروع کردیے تھے۔ مگر دشمن ملک کے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے بجائے سمندر کے گہرے پانیوں میں غرق ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا جانے والے غیر ملکیوں پر 250 ڈالر کی اضافی ویزا فیس عائد
نتائج اور اثرات
مشن کے انتہائی نزدیک پہنچ کر پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کے توپوں کے دہانے پر سب سے پہلے بھارتی ہائی فریکوینسی ریڈار آیا، جس کے بعد نیول ایئر اسٹیشن، لائٹ ہاوس اور دیگر اہم تنصیبات کو پے در پے نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران دشمن ملک کی افواج صرف اپنی بربادی دیکھتی رہی اور پاکستان سے بحری اثاثوں کے لحاظ سے کئی گنا بڑی بھارتی بحریہ کو بھاری نقصان اور شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں دوارکہ آپریشن ملک کے دفاعی لحاظ سے اور پاکستان نیوی کے لیے ایک بہت ہی اہم مشن تھا کیونکہ جنگی محاذ کھلنے کے بعد پاکستان ائیرفورس پر کشمیر میں بہت زیادہ دباؤ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان میچ کا ٹاس ہوگیا
حکمت عملی اور قیادت
اس کے لیے فوری حکمت عملی انتہائی ضروری تھی، اس آپریشن کے دو اہم مقاصد تھے۔ ایک یہ کہ دوارکہ میں ایک ریڈار اسٹیشن تھا، جو دشمن ملک کے بحری اور فضائی جہازوں کو مدد فراہم کررہا تھا، جسے تباہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسرا اہم مقصد یہ تھا کہ سمندرمیں دشمن ملک کو کچھ ایسے حالات کا شکار کیا جائے، جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے راستے مسدود ہو بلکہ پاکستان کی جانب سے دفاع کا بھرپور ماحول پیدا ہوسکے۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ پاکستان نیوی کے بحری بیڑے میں شامل تمام جہاز مکمل طور پر فعال تھے، عام حالات میں اکثر جہاز مینٹینس میں ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ارکان کانگریس کا پاکستان سے متعلق لکھا گیا خط صدر بائیڈن کو موصول ہونے کی تصدیق
آپریشن کا اختتام
دوارکہ آپریشن کی قیادت کرنے والے کروزر میں کمانڈر پاکستان فلیٹ ایس ایم انور خود موجود تھے، اس مشن میں چھ ڈسٹرائیرفری گیٹس ان کے زیر کمان تھے۔ یہ سارے بحری جہاز 200 ناٹیکل مائل (350 کلومیٹر) کا سمندری سفر طے کرنے کے بعد بھارتی حدود میں دوارکہ پہنچے، انھوں نے رات میں بمباری شروع کردی۔ ہر بحری جہاز سے ایک ساتھ 50 راونڈز فائر کیے گئے، ایک راونڈ 100 پاؤنڈ وزنی تھا، اس مشن میں ساڑھے تین ہزار پاؤنڈز گولہ بارود نے عمارت کو تباہ کیا اور جنگی ماحول پر گہرے اثرات چھوڑے۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا؟
آپریشن کے نتائج
اس آپریشن نے نہ صرف بھارت پر دھاک بیٹھی بلکہ پاکستان کی اجارہ داری اس بحری فوج کے سامنے قائم ہوئی، جو طاقت میں چار گنا بڑی تھی۔ بھارتی بحری جہاز اس عمل کے بعد مکمل طور پر مفلوج ہوگئے۔ سب سے نمایاں کردار پاکستانی آبدوز پی این ایس غازی کا تھا، جو خطے میں واحد سب میرین تھی۔ پی این ایس غازی کو بمبئی کی ہاربر کے سامنے کھڑا کردیا گیا، جس کی وجہ سے انڈین ایئرکرافٹ کیریئر بھی بندرگاہ سے باہر نہیں آسکا۔
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی میں رشتے کے تنازع پر ایک شخص قتل، ملزم گرفتار
غیر معمولی کامیابی
اس آپریشن سے ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کے لیے ایمونیشن لانے والے باغ جناح نامی جہازوں کو دوارکہ آپریشن میں شریک جہازوں نے ہی تحفظ فراہم کرنا تھا۔ تو یوں یہ سمندری راہداری بھی متوازن ہوگئی۔ دوارکہ آپریشن سے نہ صرف انڈین نیوی کی جنگی صلاحیتیں متاثر ہوئیں بلکہ بھارتی فضائیہ نے بھی محدود ہوکر کراچی ہاربر یا کسی دوسرے پاکستانی مقام پر مہم جوئی کی کوشش نہیں کی۔ دوارکہ آپریشن اگلی صبح تک مکمل ہوا، سن 65 کی جنگ 23 ستمبر تک جاری رہی، اس دوران پاک بحریہ سمندروں میں خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر چوکس رہی۔
اختتام
سیزفائر کے بعد بحری اثاثے سمندر میں کچھ عرصے کے لیے موجود رہے تاکہ دشمن ملک بھارت کی جانب کوئی اور مہم جوئی نہ کی جاسکے۔ دوارکہ آپریشن میں پاک بحریہ کے دوارکہ میں نصب ریڈار کو تباہ کرنا، ہندوستانی فضائیہ کو شمال سے ہٹانا، بھارتی افواج کے حوصلے پست کرنے جیسے اہم مقاصد شامل تھے۔