شنگھائی تعاون تنظیم: تہذیبوں کے درمیان مکالمے کے ذریعے علاقائی امن، استحکام اور تعاون کو فروغ دے رہی ہے، پاکستانی ماہر
باہمی آہنگی اور احترام کی ضرورت
تیانجن (شِنہوا) وزیر اعظم پاکستان کے سابق معاون خصوصی ظفرالدین محمود نے شِنہوا کو بتایا ہے کہ باہمی آہنگی اور احترام کو فروغ دینے کے لئے تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی پہلے سے کہیں زیادہ اشد ضرورت ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان تعمیری مکالمے کے ذریعے خطے میں امن، استحکام اور تعاون کے فروغ کے لئے ایک مستند پلیٹ فارم بن رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لندن واقعہ میں ماہرہ خان کو ہراساں کرنے والا کون ہے؟ نئی ویڈیو کے بعد قیاس آرائیاں شروع
ایس سی او کی ترقی
ایس سی او اب 27 اقوام کا خاندان بن چکا ہے اور یہ ایک جامع علاقائی تنظیم میں ڈھل چکی ہے جو دنیا کی تقریباً نصف آبادی، دنیا کے چوتھائی رقبے اور عالمی جی ڈی پی کے چوتھائی حصے پر محیط ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ نے وہ قدم اٹھالیا جو 1965 کے بعد کسی امریکی صدر نے نہیں اٹھایا
مکالمے کی اہمیت
انہوں نے زور دیا کہ ایس سی او عالمی اور علاقائی دونوں سطح پر امن، ترقی اور خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لئے ناگزیر قوت بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاص طور پر علاقائی اقتصادی انضمام اور رابطوں نے ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان ثقافتی اور تہذیبی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، چین۔پاکستان اقتصادی راہداری اور چین۔کرغزستان۔ازبکستان ریلوے جیسے منصوبے بہتر رابطوں اور نقل وحمل کی سہولت کے ذریعے ثقافتی تبادلوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے نیدرلینڈز کے سفیر رابرٹ جان کی ملاقات
شنگھائی جذبہ
انہوں نے کہا کہ شنگھائی جذبہ جو ایس سی او کا رہنما اصول ہے، باہمی اعتماد، باہمی فوائد، مساوات، مشاورت، متنوع تہذیبوں کے لئے احترام اور مشترکہ ترقی کے لئے کوششیں کرنے پر مبنی ہے، یہ جذبہ اس تنظیم کی ترقی اور وسعت کا روح رواں ہے۔ آج کی بکھری ہوئی اور تقسیم شدہ دنیا میں کشیدگی کو کم کرنے اور تنازعات و اختلافات کو حل کرنے کے لئے یہ جذبہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کویت مال بحریہ ٹاؤن میں فرنشڈ اپارٹمنٹ بک کرائیں، 30 لاکھ کا فرنیچر بالکل مفت، 3 سال میں ادائیگی
ثقافتی تبادلے کی اہمیت
ان کا چین کے ساتھ تعلق 1976 سے شروع ہوا جب انہوں نے ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے چین کا پہلا دورہ کیا، جو اس پڑوسی ملک کے متعلق تجسس سے بھرپور تھا۔ محمود نے چین۔پاکستان کے درمیان تقریباً نصف صدی پر محیط تبادلوں کا مشاہدہ کیا ہے، بہت سے پاکستانی طلباء چین بھر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف زبان سیکھ رہے ہیں بلکہ طب، سائنس، انجینئرنگ اور دیگر کئی شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طلباء واپس جاتے ہوئے ہم آہنگی اور دوستی ساتھ لے کر جاتے ہیں جو مزید پھیلتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ دھرنادھرنا کھیل رہا ہے اور مریم نواز لوگوں کو گھر اور مفت پلاٹس دے رہی ہیں:عظمیٰ بخاری
تہذیبی بندھن
ان کی نظر میں تہذیب ایک ایسا بندھن ہے جو لوگوں کو ہم آہنگی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ عالمی تنازعات اور چیلنجز کے تناظر میں باہمی ہم آہنگی، برداشت اور احترام کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یمن کے حالات کے باعث صورتحال گھمبیر ہے، 4 سے 5 کیبلز کٹی ہیں، پاکستان آنے والی 2 متاثرہ کیبلز کی بحالی میں مزید 4 سے 5 ہفتے لگ سکتے ہیں، سیکرٹری آئی ٹی
امن کی ضروریات
انہوں نے کہا کہ چاہے ممالک کے درمیان ہو یا خاندانوں کے اندر، ہم آہنگی اور احترام پرامن بقائے باہمی کے لئے لازمی شرائط ہیں۔ میں چین کی جانب سے پیش کردہ ’’انسانیت کے مشترکہ مستقبل کی حامل برادری‘‘ کے نظریئے سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ یہ تہذیبوں کے درمیان باہم سیکھنے کا بنیادی جزو ہے۔ مارچ 2023 میں تجویز کردہ عالمی تہذیبی اقدام تہذیبوں کے احترام، مشترکہ انسانی اقدار، ثقافتی ورثے اور بین الاقوامی تبادلوں پر زور دیتا ہے۔ یہ ایسے اصول ہیں جو شنگھائی جذبے کی عکاسی کرتے ہیں اور موجودہ چیلنجز کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کے لئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں。
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں سالانہ کروڑوں کمانے والے بیوٹی کلینکس کی بڑی تعداد ٹیکس نادہندہ ہونے کا انکشاف
اقوام متحدہ کی منظوری
جون 2024 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 جون کو تہذیبوں کے درمیان مکالمے کا دن منانے کے حوالے سے چین کی قرارداد کی متفقہ منظوری دی، جو ایسے اقدامات کی عالمی اہمیت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
امید کے پیغام
محمود نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تہذیبی مکالمے اور ہم آہنگی کی حمایت مسلسل بڑھ رہی ہے، جس سے یہ مختلف تہذیبوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے، تاریخی اور ثقافتی فاصلے کم کرنے اور پرامن بین الاقوامی تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک نمایاں پلیٹ فارم بن گئی ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی اور عالمی امن و ترقی کے لئے اپنا کردار جاری رکھے گی اور رکن ممالک و شراکت دار بھی تیانجن سربراہ اجلاس میں طے شدہ اہداف کو آگے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔








