دروازہ بند کروا کر فیصلہ سناتا ہوں، موت کی سزا کا سن کر بڑے بڑے بدمعاش اور قاتلوں کے رنگ اڑ جاتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے جسم میں خون ہی نہیں رہا۔

مصنف کا تعارف

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 285

یہ بھی پڑھیں: دبئی میں مسٹر پتلو گرفتار لیکن دراصل کس نے پکڑوایا ؟ مزید تفصیلات سامنے آگئیں

تاج خٹک کے ماسٹر ٹرینرز

ان کونسلرز کی تربیت سے پہلے ہمیں یعنی پورے پنجاب سے میرے کولیگز کو ماسٹر ٹرینرز کی تربیت لالہ موسیٰ اکیڈمی میں دی گئی۔ این آر بی (نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو) کے اس پروگرام کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی (UNDP) کی معاونت حاصل تھی۔ پرنسپل اکیڈمی تاج خٹک (اعلیٰ ظرف اور خوشبو دار شخصیت تھے) نے لگن اور دل جمعی سے ہماری تربیت کرکے ہم میں ایک نیا جذبہ بھر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کاروباری اور سماجی شخصیت، سپرفکس کے سی ای او نوید احمد کے برطانیہ پہنچے پر ان کا شاندار استقبال

بلدیاتی نظام کا تعارف

مدت بعد یہ ایسا بلدیاتی نظام متعارف ہوا تھا جو لوگوں کی خدمت کرنے کا بڑا مارجن لیا تھا۔ کاش یہ نظام دیر تک قائم رہتا تو ہمارے شہری اور دیہی علاقوں کی حالت بہتر ہوتی۔ لوگوں کے مقامی مسائل کافی کم ہو جاتے لیکن یہ انہیں منظور نہ تھا جن سے اس نظام نے اختیار چھینا تھا۔ وہ کسی صورت اختیار سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھے اور نہ ہی ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ کی تیاریاں، چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز پر حکومت نے فیصلہ سنا دیا

بلدیاتی نمائندوں کی حلف برداری

تمام ملک میں تربیتی پروگرامز احسن انداز میں اختتام پذیر ہو چکا تو اب آخری مرحلے یعنی منتخب نمائندوں کی حلف برداری کا وقت تھا، جس کے لئے پورے ملک میں ایک ہی دن مقرر کیا گیا تھا: 14 اگست 2001ء۔ تمام ریٹرننگ افسروں کو حکم جاری کیا گیا کہ وہ خود اپنے حلقے کی یونین کونسل کے ہیڈکواٹرز جائیں اور نمائندوں سے حلف لیں۔ جج صاحب کے ساتھ پروگرام طے ہوا کہ ہمیں 7 یونین کونسلز کے نمائندوں سے حلف لینا تھا۔

ہر یونین کونسل میں آدھ گھنٹے کا پروگرام تھا۔ تلاوت، نعت اور اس کے بعد حلف برداری اور آخر میں جج صاحب کا 5 منٹ کا خطاب۔ سیکرٹری یونین کونسل اور منتخب ناظم ہمارا استقبال کرتے۔ ہم حلف لیتے اور اگلی یونین کونسل روانہ ہو جاتے تھے۔ راستے میں جج صاحب اچھے، برے ہر طرح کے لطیفے سناکر ہمیں لوٹ پوٹ کر دیتے تھے۔ وہ بڑے زندہ دل مگر عدالت میں سنجیدہ روح تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پہلے میچ سے بہت کچھ سیکھا، اگلے میچ میں بہتر پرفارمنس دیں گے:نسیم شاہ

قضاوت کے لمحات

میں نے ان سے پوچھا؛ “سر! کتنے لوگوں کو اب تک سزائے موت کی سزا سنا چکے ہیں؟” کہنے لگے؛ “56 کو۔ سبھی فیصلے ہائی کورٹ میں چیلنج ہوئے۔ 30 فی صد فیصلے ہائی کورٹ نے برقرار رکھے جبکہ باقی ابھی زیر سماعت تھے۔” میں نے پوچھا؛ “سر! سزائے موت دیتے کبھی دکھ ہوا؟” کہنے لگے؛ “فیصلے سے پہلے اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ غلط فیصلہ نہ ہو۔ اللہ میری مدد فرماتا ہے۔”

عدالت آکر عدالت کا دروازہ بند کروا کر فیصلہ سناتا ہوں۔ موت کی سزا کا سن کر بڑے بڑے بدمعاش اور نامی قاتلوں کے رنگ اڑ جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے جسم میں خون ہی نہیں رہا۔ ہاں دکھ ہوتا ہے لیکن جب خیال آتا ہے اس نے بھی کسی معصوم کی جان لی تھی تو حوصلہ آ جاتا ہے۔ ایک بار مجھے ایک جوان کو سزائے موت سناتے دکھ ہوا تھا۔ اس نے غصے میں اپنے دوست کو قتل کر دیا تھا۔ خوبصورت جوان تھا۔ یار! اسی لئے اسلام میں غصہ حرام قرار دیا ہے۔ غصے میں انسان غلط قدم اٹھاتا ہے اور غصے اترنے کے بعد پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے۔

اختتام

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...