فیروز والا کچہری گھر سے ”بھاگے جوڑوں کی پناہ گاہ“ کیلئے بدنام تھی، گواہ اور نکاح رجسٹرار بھی دستیاب ہوتے، کیوں ہم چند روپوں کی خاطر یہ سب کرتے ہیں

مصنف

شہزاد احمد حمید

یہ بھی پڑھیں: پاکستان آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالے گا

قسط

287

یہ بھی پڑھیں: صاحبزادہ حامد رضا کا پی ٹی آئی کور کمیٹی سے استعفیٰ ، اسمبلی رکنیت بھی چھوڑنے کا فیصلہ

بھاگے جوڑوں کی پناہ گاہ

فیروز والا کچہری گھر سے ”بھاگے جوڑوں کی پناہ گاہ“ کے طور پر بدنام تھی۔ یہاں وکیل ایسے جوڑوں کی مدد کرتے، نکاح خواں بھی تھے جو نکاح پڑھاتے، شادی کے گواہ بھی دستیاب ہوتے، نکاح رجسٹرار بھی موجود ہوتے جو نکاح کا اندراج کرتے اور سیکرٹری یونین کونسل بھی جو ایسے نکاح رجسٹر ہی نہ کرتے بلکہ اس کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کرتے تھے۔ افتخار بھی ایسا ہی سیکرٹری تھا۔ ناجانے ہم چند روپوں کی خاطر کیوں گھر سے بھاگے بچوں کی مدد کے لئے یہ سب کچھ کر کے ماں باپ کے ارمانوں کا گلہ گھونٹتے ہیں اور ان کے زخموں پر گل پا شی بھی کرتے ہیں۔ ہمارا سماج دن بدن اپنی روایات سے دور ہی ہوتا جارہا ہے، کیوں؟

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 49 لاکھ سے زائد بچوں کے سکولوں سے باہر ہونے کا انکشاف

افتخار کی کہانی

افتخار ایسے ہی ایک کیس میں پکڑا گیا تھا۔ انکوائری میں اس کا جرم ثابت ہوا اور نوکری سے برخاست ہو گیا۔ اس نے ایک ریٹائر صوبیدار میجر کی بیٹی کا نکاح درج کیا تھا، جو ایسے ہی حالات سے گزری تھی۔ لڑکی کا باپ کسی صورت بھی اس جرم میں ملوث افراد کو بخشنے کے لئے تیار نہ تھا۔ غلط کام کا غلط نتیجہ۔ سزا افتخار کو ملی۔ پولیس کی قید میں بھی رہا۔ نوکری بھی چھوٹی۔ وہ تو بھلا ہو اس انصاف کے نظام کا کہ اسے بحال بھی کر دیا گیا اور وہ پہلے سے زیادہ لگن سے اس پیشہ میں جٹ گیا تھا۔ بہت سال پہلے وہ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گیا۔ اللہ اس کی خطائیں درگزر کرے۔ آمین۔

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی بڑی تباہی سے بچ گیا، فتنہ الخوارج کا خطرناک دہشت گرد گرفتار

awaiting posting کا جھمیلا

الیکشن کے بعد نیا بلدیاتی نظام رائج ہو چکا تھا۔ نئے نظام میں میری پوسٹنگ کسی بھی جگہ پر نہ ہوئی۔ بہت سے افسر سرپلس ہو گئے، میں بھی ان میں تھا۔ نیا نظام کا حصہ بننے پر ابھی دماغ بھی تیار نہ تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ میں awaiting posting ہو گیا۔ اگلے سات آٹھ ماہ مجھے کڑے امتحان سے گزرنا ہو گا جس کا کم از کم مجھے اس وقت بالکل بھی اندازہ نہ تھا۔ مجھے ایک بات یقین ہے کہ ”مشکل وقت بھی گزر جاتا ہے۔“

یہ بھی پڑھیں: بنوں کے علاقے کم چشمی میں جرگہ، فتنہ الخوراج گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کے حوالے سے اہم فیصلے

گھر کے چراغ

ستمبر یا اکتوبر 2001ء میں میں awaiting posting ہوا۔ شروع میں سوچا پچھلے 13 سال بہت کام کیا تھا۔ 13 سالوں میں صرف 13 ہی چھٹیاں کی ہوں گی جن میں 7 دن کی چھٹی شادی کے موقع پر لی تھی۔ چلو موقع ملا تھا کچھ آرام کرتے ہیں لیکن چند دن بعد ہی بوریت شروع ہوگئی۔ جنہیں کام کی عادت ہو ان کے لئے فارغ بیٹھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس نظام میں awaiting posting افسر کو تنخواہ بھی نہیں ملتی تھی۔ پہلے 2 ماہ تو گزر گئے، پھر تربیتی پروگرام کا چیک ملا تو تیسرے ماہ کا گزارا بھی ہو گیا مگر جیسے جیسے یہ دورانیہ بڑھ رہا تھا مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ بچوں کی سکول کی فیس تھی، کبھی کبھار کوئی فنکشن آ جاتا، گاڑی کا پٹرول تھا۔ چلو کھانا تو والدین کے ساتھ کھا سکتا تھا، مگر باقی خرچہ کہاں سے پورا کرتا۔ کھینچ کھانچ کے 4 ماہ گزر گئے۔ اب آٹے دال کا بھاؤ پتہ چلنے لگا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ ہیڈ کواٹرز پر ہی پوسٹنگ ہو جائے مگر ناکام رہا۔ (جاری ہے)

نوٹ

یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...