بھائی جان ہمیشہ اُن کا کام کرتے جن سے کوئی فائدہ ہو، مشکل میں ماں باپ کے علاوہ صرف سایہ ہی ساتھ رہتا ہے یا کوئی مخلص غریب دوست
مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 288
یہ بھی پڑھیں: الیکٹرک گاڑیوں، کاروں، ایل سی ویز، وینز اور جیپوں کی فروخت میں 28 فیصد اضافہ
ماڈل ٹاؤن کلب کی داستان
میں ماڈل ٹاؤن کلب کا اعزازی سیکرٹری تھا۔ ابرار بھائی کلب کے صدر تھے، اور حسن نثار بھائی تقریباً روز ہی آتے تھے۔ ان دونوں کی یاری بے مثال تھی۔ ایک روز میں کلب میں بہت تنگ اور اوازار بیٹھا ابرار بھائی سے اپنی مشکلات کی کہانی بیان کر رہا تھا۔ اتنے میں حسن بھائی اور کالم نگار ہارون الرشید صاحب بھی آ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے مشیر قومی سلامتی مائیک والٹز کو عہدے سے کیوں ہٹایا؟ آخر کار وجہ سامنے آگئی۔
سفارش کا معاملہ
ابرار بھائی نے حسن بھائی سے میری پوسٹنگ کی بات کی۔ وہ ایسے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے تھے۔ ابرار بھائی کے اصرار پر انہوں نے ہارون الرشید صاحب سے کہا "اگر وہ کچھ کر سکتے تھے۔" ہمارے ایک ایڈیشنل سیکرٹری غالباً اطہر شمیم ان کے واقف کار تھے۔ کہنے لگے؛ "کل میں آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ امید ہے کام ہو جائے گا۔"
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی گرفتاری پر دلچسپ ردعمل
مرہم یا امتحان؟
یہ سن کر حسن بھائی بولے؛ "کم تکر ای گل رکھیں۔" وہ مسکرا دئیے۔ ان کی یہ بات میرے تو اوپر سے ہی نکل گئی تھی۔ بہرحال اگلے روز وہ میرے ساتھ گئے، ایڈیشنل سیکرٹری صاحب سے سفارش بھی کی لیکن میری قسمت میں ابھی اور امتحان باقی تھا۔ واپسی پر مجھے ان کی فرمائش پر "غلام رسول" کے چنے کھلانے پڑے۔ سستے زمانے میں بھی جیب میں پیسے نہ ہوں تو ہر شے مہنگی ہی لگتی ہے۔ انہوں نے "بوٹی والے" اور میں نے سادہ چنے کھائے۔ میری جیب میں یہ پیسے بھی ادھار کے ہی تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان معاشی استحکام کی راہ پر گامزن ہے، وزیر خزانہ کا لندن میں کانفرنس سے خطاب
معزز ملاقاتی
ماڈل ٹاؤن کلب کے ایک ممبر محمد خاں لغاری (یہ ریٹائرڈ اسسٹنٹ کمشنر اور ملتان کے رہنے والے تھے) ان کے ہمارے سپیشل سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر سے خاندانی مراسم تھے۔ میں نسیم کھوکھر (یہ بعد میں وزیر اعلی پنجاب کے سیکرٹری اور پھر وفاقی سیکرٹری داخلہ بھی رہے) سے ملا۔ وہ اچھی طرح پیش آئے اور مجھے اپنے دوست ڈی سی او شیخوپورہ خسرو پرویز خاں کے پاس بھیج دیا۔
یہ بھی پڑھیں: قلوپطرہ کے علاوہ مصر کی ایک اور حسین ملکہ ہوا کرتی تھی، مصر میں جتنے اسکے مجسمے بنائے اور خریدے جاتے ہیں شاید ہی کسی اور کے ہوں
تعیناتی کی آفر
(خسرو پرویز صاحب؛ بڑی بڑی مونچھیں، گورا چٹا رنگ، بارعب اور خاندانی انسان۔ جب میں منسٹر لوکل گورنمنٹ کا سٹاف افسر تھا تو یہ کچھ عرصہ سپیشل سیکرٹری بلدیات بھی رہے تھے۔ جب میں کھاریاں تھا تو ان کے بڑے بھائی مسعود پرویز خاں کھاریاں کینٹ میں کنٹونمنٹ افسر بھی رہے تھے۔) انہوں نے مجھے ایڈمن افسر کی پوسٹ پر تعیناتی کی آفر کی۔ آیا تو دل میں سوچا، تین بسیں بدل کر یہاں پہنچوں گا، خرچہ بھی کافی ہوگا، آدھی تنخواہ آنے جانے میں ہی لگ جائے گی اور تکلیف علیحدہ سے ہو گی۔ کچھ اور انتظار کر لو۔ ویسے بے بسی بھی دنیا کا بڑا curse ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری بانڈز کے نیلامی سے حکومت کو ایک اعشاریہ دو کھرب روپے کی آمدن
ماں کی دعائیں
میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے معذرت کر کے ایک اور حماقت کر لی تھی۔ ڈی جی کو ترس آ ہی گیا؛ خیر امی جی کئی بار بھائی جان بوبی سے کہہ چکی تھیں کہ "اس کی پوسٹنگ کے لئے ڈائریکٹر جنرل بلدیات سے بات کرو لیکن وہ بات گول کر جاتے تھے۔" بھائی جان بوبی ہمیشہ اُن کا کام کرتے جن سے انہیں کوئی فائدہ ہو سکتا تھا۔ مشکل میں ماں باپ کے علاوہ صرف سایہ ہی ساتھ رہتا ہے یا کوئی مخلص غریب دوست۔ یہ میرا آزمودہ ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








