چپقلش کا خوب شور تھا، سرکار کی نوکری کرتے 14برس بیت گئے تھے، ابھی پہلی پروموشن کا انتظار تھا، تکلیف دہ انتظار اور یہ ختم ہوتے نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔
مصنف کی شناخت
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 292
یہ بھی پڑھیں: سفارت خانہ پاکستان ابو ظہبی میں مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے والی شخصیات کے مضامین کے مجموعہ پر مشتمل کتاب کی تقریب رونمائی
نوکری کا سفر
سرکار کی نوکری کرتے 14 برس بیت گئے تھے اور ابھی پہلی پروموشن کا انتظار تھا۔ تکلیف دہ انتظار اور یہ ختم ہوتے نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔ 1979ء میں دو گروپ (ڈولپمنٹ افسر اور ایگریکلچر افسر) کا مرجر ہوا اور لوکل گورنمنٹ اور رولر ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ بن گیا اور پھر ان گروپوں میں سنیارٹی کا نہ ختم ہونے والی جھگڑا شروع ہوا۔ 1988ء میں جب ہم پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ محکمے میں آئے تو ان کی چپقلش کا خوب شور تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ماہره خان کا ’رئیس‘ کے پوسٹرز سے تصویر ہٹانے پر ردعمل سامنے آگیا
ایسوسی ایشن کا قیام
ہم نے بھی اپنی ایسوسی ایشن بنائی اور اس جھگڑے میں کود پڑے۔ ہمارا سیاپا دوست اختر نواز لیڈری کا رول کرنے لگا اور کچھ ہی دنوں میں قاری ضیاء الحق کی صورت دوسرا لیڈر بھی سامنے آ گیا۔ قاری نے کورٹس کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔ سینئر گروپ کے لیڈروں سے بات بھی کی کہ ترقی کا کوئی فارمولا بنا لیتے ہیں۔ کوئی بات ماننے اور سننے کو تیار ہی نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی بزدلانہ حملے میں شہید اور زخمی ہونیوالے معصوم بچوں اور بے گناہ شہریوں کیلئے امدادی پیکج جاری
ترقی کی راہ میں رکاوٹیں
اس جھگڑے نے سینئرز کا زیادہ نقصان کیا۔ ماسوائے چند ایک کے اُن میں سے کوئی اگلے گریڈ میں بھی ترقی نہ پا سکا تھا۔ یوں سترویں گریڈ سے شروع ہونے والی افسروں کی اسی گریڈ میں ختم ہوئی۔ یہ بڑی شرمندگی کی بات تھی ہر اس افسر کے لئے جو ذرا سی بھی عقل رکھتا تھا کہ جس گریڈ میں بھرتی ہوا، تیس (30) پنتیس (35) سال کی نوکری کے بعد اسی گریڈ میں ریٹائر ہو جائے۔ زندگی کا cheap compromise کم از کم مجھ جیسا تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ لوگ دی گئی ہر دلیل کے برعکس نالائق ہی خیال کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: آئین 1973 کے جن ستونوں پر ریاست کھڑی تھی، وہ مؤثر طور پر منہدم کر دیے گئے ہیں، مصطفیٰ نواز کھوکھر
نئی تقرری کی کہانی
یہ کشمکش جاری تھی کہ راجہ بشارت صاحب مشیر لوکل گورنمنٹ مقرر ہوئے اور پھر گجرات سے ضمنی الیکشن جیت کر وزیر قانون و بلدیات پنجاب کا حلف اٹھایا۔ انہیں نے خواہش ظاہر کی کہ محکمے سے ایک افسر بطور سٹاف افسر ڈیوٹی کے لئے مہیا کیا جائے۔ نا جانے کیا من میں آئی کہ میں نے بھی اپنی خدمات پیش کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وجہ شاید مجھے چیلنجز کا سامنہ کرنا اچھا لگتا تھا۔ اس تعیناتی کی بھی دلچسپ کہانی تھی۔ میں اس پوسٹنگ کے لئے تیار تھا پر ڈی جی مجھے بھیجنے کو تیار نہ تھے۔ جٹ کی سفارش نے جٹ کو منا لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب حکومت کے مثالی انتظامات نے محرم الحرام کو پرامن اور منظم بنایا: عظمٰی بخاری
ادارہ کی وضاحت
حصہ سوئم
”باوقار شخصیت کی رفاقت میسر ہو تو ذاتی مزاج اور رویئے بھی مثبت انداز میں ساتھ نبھاتے ہیں۔“ اس حصے میں وہ کہانی اور واقعات ہیں جو پنجاب کے وزیر بلدیات، قانون، پبلک پراسیکیوشن، بشارت راجہ صاحب کے سٹاف افسر کے بطور پیش آئے۔
حقوق اشاعت
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








