گھر آ کر فون کر کے صورتحال بتائی اور پوچھا”بتا یار کیا کروں؟“ اس نے وزیر کا نام پوچھا۔ میں نے بتایا توبولا”چپ کر کے جوائن کر لے،اچھا آدمی ہے“۔

مصنف کی تفصیلات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 293
سٹاف افسر وزیر بلدیات، قانون، پبلک پراسیکیوشن، ہوم۔ پنجاب
یہ بھی پڑھیں: عالمی قوانین کے تحت پاکستان کو بھارتی جارحیت کا جواب دینے کا پورا حق حاصل ہے: بلاول
میری تعیناتی
فروری 2002ء۔ ڈی جی لوکل گورنمنٹ کرنل(آر) محمد شہباز ایک میٹنگ سے واپس آئے اور ہیڈ کواٹرز کے تمام افسران کی میٹنگ بلا ئی۔ وہ کہنے لگے؛ ”منسٹر بلدیات کو محکمہ سے ایک افسر کی ضرورت ہے جو ان کے ساتھ بطور سٹاف افسر ذمہ داری نبھائے۔ جو اس ڈیوٹی کے لئے جانا چاہتا ہے بتا دے۔“ کسی افسر نے بھی رضا مندی ظاہر نہ کی۔ خاموشی دیکھ کر میں بولا؛ ”سر! میں اس ڈیوٹی کے لئے خود کو پیش کرتا ہوں۔“ نا جانے انہیں مجھ سے کیا چٹر تھی پہلے مجھے عرصہ تک awaiting posting رکھا اور اب یہ بات سن کر مجھے چپ کرا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پرامن زندگی گزارنے کا موقع دیں۔۔۔ باجوڑ کے عوام کا دہشتگردوں کے خلاف احتجاج، انگریزی جریدے کی گمراہ کن رپورٹنگ پر شدید ردعمل
ذوالفقار کا انکار
دراصل وہ میرے بیج میٹ ذوالفقار حیدر کو اس ڈیوٹی کے لئے بھیجنا چاہتے تھے۔ وہ صاف انکار کر چکا تھا مگر ڈی جی پھر بھی بضد رہے لیکن ذوالفقار اپنے انکار پر ڈٹا رہا۔ میں اٹھا اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل حمید وڑائچ صاحب کے پاس چلا گیا۔ یہ گجرات کے رہنے والے اور لالہ اعجاز کے بڑے تعلق دار، ذات کے جاٹ اور اچھے انسان تھے۔ میں نے ان سے بات کی؛ ”سر! ذوالفقار یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور اگر کرنل صاحب نے مجھے recommend نہ کیا اور کسی دوسرے محکمہ سے کوئی افسر بطور سٹاف افسر آ گیا تو سب کے لئے مشکل ہو گی۔“ بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور بھارت میں فصلیں جلاکر آلودگی کا سبب بننے والے درجنوں کسان گرفتار
حمایت حاصل کرنا
مجھے ساتھ لیا اور ڈی جی کے پاس چلے آئے۔ کرنل صاحب بھی جہلم کے جاٹ تھے۔ ایک جاٹ نے دوسرے جاٹ سے میری سفارش کی تو بات انہیں بھا گئی۔ کہنے لگے؛ ”اؤ ے تم یہ ذمہ داری نبھا لو گے۔“ میری جگہ حمید وڑائچ صاحب نے جواب دیا؛ ”صرف یہی نبھا سکے گا۔ ذوالفقار کے بس کی بات نہیں۔ منسٹر بلدیات بڑے سمجھ دار ہیں۔“
یہ بھی پڑھیں: پل گرنے سے پسرور، سیالکوٹ کا زمینی رابطہ منقطع
منسٹر سے ملاقات کا انتظار
کرنل صاحب کہنے لگے؛ ”میں منسٹر کو فون کر دیتا ہوں۔ تم کل 10 بجے ان کے پاس چلے جانا اور بتا دینا کہ ڈی جی نے بھیجا ہے۔ ہاں وہ کالی سوفٹ کار لے جانا۔“ انہوں نے منسٹر کو دو تین بار فون کیا جو attend نہ ہوا۔ بشارت راجہ صاحب منسٹر بلدیات و قانون پنجاب تھے۔”
یہ بھی پڑھیں: گورنر سندھ کا 24 دسمبر کو مہاجر کلچر ڈے منانے کا اعلان
مشاورت اور مشورہ
گھر آ کر قاری ضیاء کو فون کر کے صورت حال بتائی اور پوچھا؛ "بتا یار کیا کروں؟“ اس نے مجھ سے وزیر کا نام پوچھا۔ میں نے بتایا تو بولا؛ "چپ کر کے جوائن کر لے۔ اچھا آدمی ہے۔" صاحب زادہ (صاحبزادہ فضل کریم قاری کے بہنوئی اور شہباز شریف کی وازرت اعلیٰ میں وزیر مذھبی امور اور اوقاف تھے۔ بڑے دین دار اور نیک انسان تھے۔ سیاست میں بھی انہوں نے شرافت نہیں چھوڑی۔ کچھ عرصہ پہلے وفات پا گئے۔ اللہ درجات بلند کرے۔ آمین۔ اب ان کا بیٹا صاحبزادہ حامد رضا اُن کا مشن آگے بڑھا رہا ہے۔)
یہ بھی پڑھیں: کیا ٹیپو سلطان اپنے مخالفین پر شدید تشدد کے حامی تھے؟
سیکرٹریٹ کا ماحول
بہر حال اگلے روز میں 10 بجے سیکرٹریٹ منسٹر کے دفتر پہنچ گیا۔ وہ ابھی دفتر نہیں پہنچے تھے۔ دفتر کا ماحول اجنبی تھا۔ سارا عملہ ایس اینڈ جی اے ڈی سے تھا۔ یہ وہ محکمہ ہے جو وزرا ء کے لئے سٹاف مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 34 کرنے کا بل سینیٹ سے بھی منظور
چالیس کی پہلی ملاقات
یہ قرعہ by default میں نے اپنے نام لگوا لیا تھا۔ آج وزیر صاحب بلکہ کسی بھی وزیر سے زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔