میٹنگ ختم ہونے کے بعد منسٹر کا کہنا: “کیا نوٹ کر رہے تھے؟”

مصنف کی تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 295
لاء ڈیپارٹمنٹ;
یہ بھی پڑھیں: غیرت کے نام پر دو بھائیوں نے بہن کو گلا دبا کر قتل کر دیا
قانون کے دفاتر کا دورہ
میں لاء ڈیپارٹمنٹ چلا آیا جہاں شیخ فاروق، سیکرٹری لاء، میرے بڑے بھائی خالد فاروق کے دوست تھے۔ (بعد میں یہ ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔ نفیس اور سیانے افسر تھے۔) اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے مجھے میٹنگ روم بھیج دیا۔ دراصل یہاں منسٹر صاحب اگلے روز ہونے والے اسمبلی سیشن میں وزارت قانون سے متعلقہ سوال و جواب کی تیاری کے لئے آنے والے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مختلف شہروں میں موسلادھار بارش، نشیبی علاقے زیر آب، درجنوں مکانات منہدم
سوال و جواب کی تیاری
4 بجے ان کا فون آیا کہ میں وزارت قانون کے دفتر پہنچ رہا ہوں۔ میں نے سیکرٹری لاء کو بتایا اور ہم انہیں رسیو کرکے میٹنگ روم چلے آئے۔ مشہود بھی ان کے ساتھ تھا۔ سوال و جواب کی تیاری کا سلسلہ 2 گھنٹے سے کچھ زیادہ دیر جاری رہا۔ کل تیس(30) سوال تھے۔ منسٹر نے باری باری سارے سوال اور جواب پڑھے۔ سوال و جواب کا چھپا ہوا ایک کتابچہ مجھے بھی تھما دیا گیا۔ کئی ضمنی سوال منسٹر کے ذہن میں آئے۔
یہ بھی پڑھیں: این اے 129 ضمنی الیکشن، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی افواہوں پر حماد اظہر کی طرف سے وضاحت آگئی
نوٹس اور رائے
بعض سوالات پر انہوں نے اضافی معلومات حاصل کرنے کو کہا۔ میں اپنی کاپی پر منسٹر کی observations نوٹ کرتا رہا۔ میٹنگ ختم ہوئی تو منسٹر کہنے لگے؛ “آپ کیا نوٹ کر رہے تھے۔“ میں نے اپنی کاپی انہیں دکھائی۔ دیکھ کر کہنے لگے؛ “آپ نے میرا کام آسان کر دیا ہے۔ کل سارے سوالوں کو انہی observations کے تناظر میں اپ ڈیٹ کر لیں۔“ یہ تھی میری پہلی assignment۔ انہوں نے اپنے ساتھ سٹاف کار میں بٹھایا اور ہم واپس دفتر چلے آئے۔ زندگی میں یہ پہلی بار جھنڈے والی کار میں سوار ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ
اسمبلی کا دورہ
پنجاب اسمبلی؛ اسمبلی کی عمارت باہر سے تو کئی بار دیکھی تھی لیکن اندر سے دیکھنے کا اتفاق پہلی بار ہونا تھا۔ اسمبلی پہنچے۔ گیٹ پر اور پھر اسمبلی کے مرکزی دروازے پر چیکنگ ہوئی۔ اس دور میں یہ سکیورٹی چیک اتنا سخت نہ تھا۔ اب تو اسمبلی سے دور ہی بیرئیر لگ چکے ہیں۔ متعلقہ آدمی کے سوا کوئی اندر نہیں جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: سکولوں کی مانیٹرنگ کیلئے 9 کمیٹیاں بن گئیں ،کیا فرائض انجام دیں گی؟ جانیے
سپیکر اور اسمبلی کی شان
کچھ دن کے بعد اسمبلی کے سکیورٹی سٹاف سے بھی جان پہچان ہو گئی تو چیکنگ والا مسئلہ بھی نہ رہا۔ افضل ساہی صاحب سپیکر تھے۔ آفتاب جوئیہ وہاں ایڈیشنل سیکرٹری تھا۔ اس سے بھی گاہے بگاہے ملاقات ہونے لگی تھی۔ اسمبلی کی پر شکوہ عمارت کا اپنا رعب ہے۔ نچلی گیلری سے سڑھیاں اوپر مرکزی گیلری میں اترتی ہیں۔ اس گیلری میں پنجاب اسمبلی کے تمام سابق سپیکرز کی لگی تصاویر پہلی بار آنے والے کو ماضی میں لے جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سابق فٹبالر کو ایک ملک کا صدر بنا دیا گیا
کمرہ نمبر 308
اسمبلی میں وزراء کے لئے مختص ہر کمرے میں دو دو وزیر بیٹھتے تھے مگر وزیر قانون کے لئے علیٰحدہ کمرہ تھا۔ جس میں رکھے ٹی وی سے اسمبلی کی کارروائی دیکھی جا سکتی تھی۔ اسمبلی کے کمرے میں 3 کمیٹی رومز، سپیکر اور وزیر اعلیٰ کے دفاتر ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر، لائبریری، کیفے ٹیریا، اسمبلی سٹاف کے دفاتر گراؤنڈ فلور پر ہیں۔ اسمبلی کا پر شکوہ نیم دائرے نما ہال ماضی کی عظمت کا آئینہ دار ہے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔