کالا باغ ڈیم: 1953 میں مسلم لیگ کی حکومت کے دوران شروع ہوا، 6 سال میں مکمل ہونا تھا، مگر سیاسی مخالفت اور مصلحتوں کے سبب مکمل نہ ہو سکا

مصنف: رانا امیر احمد خاں
کالا باغ ڈیم کی منصوبہ بندی
قسط: 164
کالا باغ ڈیم کی منصوبہ بندی پر 1953ء میں مسلم لیگ کے اولین دور حکومت میں کام کا آغاز ہوا تھا۔
بین الاقوامی ماہرین کی رپورٹ
1982ء میں اقوام متحدہ کے ادارے (UNDP) کے توسط سے مختلف بین الاقوامی ماہرین نے ڈیم کے قابل عمل ہونے کی رپورٹ تیار کی جس پر ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد لاگت آئی۔
پروجیکٹ کی تخمینی لاگت و آمدنی
یہ منصوبہ 6 سال کی مدت میں 1 کھرب اور 30 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہونا تھا جبکہ اس کی تعمیر سے سالانہ 3320 ارب روپے کی آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا۔ دوسری طرف بجلی کے شعبے میں سالانہ 30 تا 35 ارب روپے کے زرمبادلہ کی بچت متوقع تھی۔
سیلاب کنٹرول اور روزگار کے مواقع
اس ڈیم کی تعمیر سے دریائے سندھ پر سیلابوں کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔ ڈیم سے تقریباً 35 ہزار افراد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور وطن عزیز بجلی کی ضروریات میں خود کفیل ہو جائے گا۔
زرعی ترقی کے فوائد
اس ڈیم کی تعمیر کے بعد چاروں صوبوں کا تقریباً 50 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ سیراب ہو گا۔ صوبہ سرحد و صوبہ سندھ کی لاکھوں ایکڑ اراضی کو سیم و تھور سے محفوظ رکھا جا سکے گا۔
تحقیقات اور حقیقتیں
مختلف تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ڈیم کی جھیل میں پانی کی مجموعی بلندی سطح سمندر سے زیادہ سے زیادہ 915 فٹ ہو گی جبکہ مردان سطح سمندر سے 970 فٹ، نوشہرہ 962 فٹ اور صوابی کا علاقہ ایک ہزار فٹ بلند ہے۔ اس طرح جھیل کے پانی کی سطح اس علاقہ میں 50 فٹ سے 100 فٹ نیچے ہو گی، لہٰذا نوشہرہ کے ڈوبنے کے خدشات بالکل بے بنیاد ہیں۔
قابل عمل اور منافع بخش منصوبہ
عالمی بینک، ایشین بینک اور دوسرے ملکی و غیر ملکی اداروں نے اس منصوبے کو ہر لحاظ سے قابلِ عمل اور منافع بخش قرار دیا ہے۔
سیاسی رکاوٹیں
ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو گزشتہ 15 سالوں سے معرضِ التواء میں رکھنے کی وجہ سے آج پاکستان کو آٹے، آلو، پیاز جیسی اشیائے خوردنی اور بجلی کی قلت کے روزافزوں بحران کا سامنا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کی وجہ سے آئندہ سالوں میں یہاں صومالیہ، ایتھوپیا جیسی قحط زدگی کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی اپیل
یہ امر باعثِ صد افسوس ہے اور بدقسمتی کی بات ہے کہ خالصتاً فنی و تکنیکی اور اقتصادی تعمیر و ترقی کے اس منصوبے کو ہمارے سیاسی قائدین نے صوبائی عصبیت، سیاسی مخالفت، خود غرضیوں اور مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہوا ہے۔
سستی بجلی کے حصول کی اہمیت
کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور ہائیڈل سستی بجلی کا حصول ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں ہے کیونکہ سستی بجلی وافر مقدار میں پیدا کرنے کے بعد ہم لوڈشیڈنگ سے نجات پا سکتے ہیں اور وطن عزیز کو صنعتی و زرعی ترقی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔
حکومت سے مطالبہ
لہذا ہم اراکین ہائی کورٹ بار تمام سیاسی جماعتوں اور قائدین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ صوبائیت کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے سے باز رہیں اور صرف قومی و ملی مفادات کے لئے کام کریں۔ ہم حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لینے اور اس حوالے سے 30 جون سے پہلے حتمی فیصلہ کرنے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن فوری طور پر تشکیل دیا جائے، جس میں چاروں صوبوں کے فنی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے۔
آنے والے مسائل کی تشویش
اس ضمن میں تاخیر سے فیصلے کرنے سے نہ صرف نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں بلکہ اگر ان امور پر فوری توجہ نہ دی گئی تو اس سے ملکی صنعت اور زراعت مکمل طور پر تباہی سے دوچار ہو جائے گی اور مہنگائی و بے روزگاری جیسے سنگین مسائل مزید گھمبیر ہو جائیں گے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔