Thar کی ثقافتی دھڑکن تھم گئی؛ معروف لوک گلوکار عارب فقیر انتقال کرگئے

عارب فقیر کا انتقال
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن) سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر کے عظیم لوک گلوکار عارب فقیر طویل علالت کے بعد 80 سال کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔
یہ بھی پڑھیں: ایکسپورٹ فیسلیٹیشن سکیم چوری کا ذریعہ بن گئی، حکومت کو 25 ارب کا نقصان، دوہرا معیار ختم کیا جائے:سلیم ولی محمد
آخری ایام
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق وہ تپ دق اور گردوں کی بیماریوں کے باعث مِٹھی کے سول ہسپتال میں زیر علاج تھے، جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب سے سینیٹ کی خالی ہونے والی نشست پر امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع
ثقافتی اثرات
عارب فقیر کی موت نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے خطے کے ثقافتی منظر نامے کو گہرا صدمہ پہنچایا ہے۔ دہائیوں پر محیط اپنے فنی سفر میں وہ تھر کی لوک موسیقی کے امین بن گئے تھے، جن کی آواز میں صحرا کی روایتی دھنوں نے نئی زندگی پائی۔ وہ ڈھاٹکی، مارواڑی، راجستھانی اور تھری زبانوں میں اپنے گیتوں کے ذریعے صحرائی زندگی کے رنگ بکھیرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چچا کے ہاتھوں مبینہ طور پر 2 ننھے بھتیجے قتل
گیتوں کی خصوصیات
ان کے گیتوں میں صحرا کی عوامی دانش ’لوک دانش‘ کی جھلک صاف نظر آتی تھی، جو خوشی اور غم دونوں کے جذبات کو یکجا کرتی تھی۔ ان کے مقبول ترین گیت ’ہرمرچو‘ میں پہلی بارش کے بعد کی خوشی اور کاشتکاری کے آغاز کی امید جھلکتی تھی، جبکہ ’ڈورو الودعی‘ نامی گیت دلہن کی رخصتی کے وقت کے درد اور امید کو انتہائی مؤثر طریقے سے بیان کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: معروف دانشور، ادیب اور صحافی سرور منیر راؤ کی نئی کتاب “مدینہ منورہ تاریخ کے عین میں” شائع ہو گئی
فنی ورثہ اور مقامی محبت
ثقافتی حلقوں میں عارب فقیر کی آواز کا موازنہ عظیم لوک گلوکارہ مائی بھاگی سے کیا جاتا تھا۔ انہیں اپنے فن کے اعتراف میں متعدد ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا، لیکن وہ ہمیشہ اپنی زمین اور اپنے لوگوں سے جڑے رہے۔ ان کی وفات کی خبر سنتے ہی شعرا، فنکاروں اور عوام کی بڑی تعداد مِٹھی سول اسپتال پہنچ گئی، جہاں سے ان کی میت ان کے آبائی گاؤں منتقل کی گئی۔
مسائل اور چیلنجز
عارب فقیر کی وفات نے ایک بار پھر سینئر فنکاروں کے ساتھ ریاستی بے اعتنائی کے مسئلے کو اجاگر کر دیا ہے۔ سول سوسائٹی کی بارہا اپیلوں کے باوجود صوبائی محکمہ ثقافت نے ان کے علاج معالجے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے۔ بہت سے لوگوں کے لیے ان کا انتقال محض ایک فنکار کی موت نہیں، بلکہ تھر کی ثقافتی روایت کے ایک اہم باب کا اختتام ہے۔