مکمل تباہی کا دور شروع ہو گیا، گاؤں کے باسیوں نے کچھ عرصے تک انتظار کیا، جب دیکھا کہ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا، تو وہ بھی ہوشیارہو گئے۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 256

اس بچے کھچے اور اْدھڑتے ہوئے نظام کے اس بڑے حصے یعنی سمہ سٹہ بہاولنگر لائن کو کچھ دن تک تو مصنوعی تنفس پر زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی، جس کے لیے ایک تھکی ہاری ڈھانچہ نما گاڑی کو دکھاوے کے لیے ان دونوں اسٹیشنوں کے بیچ ہانک دیا جاتا تھا مگر اس لائن کے بھی اب دن گنے جا چکے تھے اور اس کا جانا بھی ٹھہر گیا تھا۔

آخری ہچکیاں

یہ کچھ برس تک تو آخری ہچکیاں لیتی رہی اور قریب المرگ مریضوں کی طرح ہلکی چال سے چلتی رہی پھر ایک دن یہ ناٹک بھی اس وقت ختم ہو گیا جب لوگوں نے اپنی گھڑیوں پر ایک نظر ڈالی اور پھر دور دور تک خالی پٹری کو قدرے حیرانی سے دیکھا کہ وقت تو نکل رہا تھا اور اس پٹری پر گاڑی کے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ بہرکیف گاڑی کو آنا تھا نہ آئی۔ یہ جولائی 2011ء کا ایک اداس اور مضطرب سا دن تھا۔

جذبات و احساسات

کہیں پٹری کی سانسیں بھی اکھڑ رہی ہیں۔ ریل گاڑی کا انجن جانے کہاں رہ گیا ہے۔ تب ہی مقامی لوگوں کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی کہ تاریخ کا یہ خوبصورت باب بھی اب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا تھا۔ مسافر جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھے، اسٹیشنوں سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس ریلوے لائن کے پہلو میں رواں دواں سڑک پر بس اور ویگن والوں نے ریل گاڑی کی اس بندش پر بڑا جشن منایا ہو گا کہ بالآخر انھوں نے پہاڑ جیسے انجن اور اس کے پیچھے لگے ہوئے ڈبوں کو گھٹنوں کے بل گرا ہی دیا۔ جب سب کو یہ یقین ہو گیا کہ اب یہاں کوئی گاڑی نہیں آئے گی تو وہ سب کچھ بھول گئے، اس گاڑی کی تاریخ بھی اور جغرافیہ بھی۔ نئی نسل کے بچوں کو تو علم ہی نہیں ہے کہ یہاں کبھی ریل گاڑی نام کی کوئی چیز بھی ہوا کرتی تھی، انھوں نے اپنے گاؤں کے آس پاس بچھی ہوئی زنگ آلود فولادی پٹریوں کو تو ضرور دیکھا ہو گا مگر ان کی یادداشت میں ریل گاڑی کے حوالے سے شاید ہی کوئی شے محفوظ ہو۔

تباہی کا آغاز

پھر اس لائن کی مکمل تباہی کا دور شروع ہو گیا۔ لائن کے ساتھ ساتھ بسے ہوئے گاؤں کے باسیوں نے کچھ عرصے تک تو انتظار کیا اور جب دیکھا کہ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا، تو وہ بھی ہوشیار ہو گئے اور انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اسٹیشنوں کے عملے کو ایک قبیح کاروبار میں حصہ دار بنایا اور اسٹیشن کی عمارت سے سامان اتار کر لے جانا شروع کر دیا۔

لوٹ مار کا دور

سب سے پہلے کھمبوں سے ٹیلی گراف اور ٹیلی فون کی خالص تانبے کی تاریں کاٹ کر بیچ دی گئیں، پھر اسٹیشن کے فرنیچر کی باری آئی۔ حکومت یا محکمہ ریلوے کی طرف سے کوئی ردعمل نہ پا کر ان کے حوصلے بڑھ گئے تو انھوں نے بڑا ہاتھ مارا اور عمارتوں کی کھڑکیاں اور دروازے بھی اتارے اور جا کر اپنے گھروں میں نصب کر لیے۔ بے حمیت لوگوں نے اسٹیشن اور دوسری عمارتوں سے اینٹیں اکھاڑیں اور اپنے نئے گھروں کی تعمیر شروع کر دی۔ شہتیروں کی جگہ پر لکڑی کے مضبوط سلیپر پٹری تلے سے کھینچ لیے گئے اور ان کی قطع برید کر کے اور جوڑ جاڑ کر ان پر اپنے گھروں کی چھتوں کا بوجھ ڈال دیا۔

پٹری کے فولادی گارڈروں کو بھی بیچ کر کچھ مال بنانے کا سوچا گیا، لیکن یہ مضبوطی سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اور وزنی ہونے کے سبب یہ ان کے ہاتھ نہ لگ سکے۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...