آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کے لیے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے۔ آزادانہ اپیل کیلئے 45 دن میں قانون سازی پوری کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: دبئی میں 41 بھکاری گرفتار، ان سے کتنے پیسے برآمد ہوئے؟ تہلکہ خیز انکشاف
انٹرا کورٹ اپیلیں
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری انٹرا کورٹ اپیلوں کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ نے 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو مزید شرمندہ نہ کیا جائے، اس وقت پاکستان میں 2 ہی لیڈرز ہیں، پہلے عمران خان، اب بلاول بھٹو نظر آتے ہیں: فیصل واوڈا
ملٹری ٹرائل کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کا پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا، جس سے جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (بدھ) کا دن کیسا رہے گا ؟
قانون سازی کا حکم
سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دیا جائے۔ حکومت سے 45 دن میں اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بینک کے وفد کا پی ڈی ایم اے پنجاب آفس کا دورہ ، اہم امور پر تفصیلی بریفنگ
آئینی ردعمل کا مقصد
تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل کا مقصد آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ کہ عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کیلئے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کی معلومات
فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا۔ پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اور کہا کہ اگر عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔