آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کے لیے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے۔ آزادانہ اپیل کیلئے 45 دن میں قانون سازی پوری کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: 7 دوستوں کا 15 سال پرانا خواب پورا، برطانیہ کا سب سے قیمتی خزانہ دریافت
انٹرا کورٹ اپیلیں
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری انٹرا کورٹ اپیلوں کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آئینی بینچ نے 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ 9 مئی، مختلف مقدمات میں ملوث ہزاروں افراد کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیئے گئے
ملٹری ٹرائل کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کا پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا، جس سے جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مون سون سیزن، مری میں الرٹ جاری
قانون سازی کا حکم
سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دیا جائے۔ حکومت سے 45 دن میں اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہمت کارڈ فیز تھری کا آغاز ، 35 ہزار افراد مستفید ہوں گے: صوبائی وزیر سہیل شوکت بٹ
آئینی ردعمل کا مقصد
تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل کا مقصد آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ کہ عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کیلئے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کی معلومات
فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا۔ پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اور کہا کہ اگر عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے یہ بھی کہا کہ عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔








