پاکستان پر قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ گیا، ہر پاکستانی شہری 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے، معاشی تھنک ٹینک کی رپورٹ

قرضوں کی بڑھتی ہوئی صورت حال
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) معاشی تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ نے بڑھتے ہوئے قرضوں پر رپورٹ جاری کردی، جس کے مطابق پاکستان کا ہر شہری 3 لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے، 10 سال قبل پاکستان کا ہر شہری 90 ہزار 47 روپے کا مقروض تھا، اس عرصے میں ہر شہری پر قرضہ دو گنا سے زائد بڑھ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا پولیس کا ٹک ٹاکرز کیخلاف کریک ڈاؤن، گرفتاری و مقدمات درج
قرضوں کی شرح میں اضافہ
ڈان نیوز کے مطابق اکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈیولپمنٹ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں سالانہ اوسطاً 13 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کا قرضہ معیشت کے 70.2 فیصد کے برابر ہوچکا ہے، جبکہ خطے کے دیگر ممالک جیسے بھارت پر 57.1 فیصد اور بنگلہ دیش پر 36.4 فیصد ہے۔ پاکستان ایک خطرناک قرض کے جال میں پھنس چکا ہے، بلند شرح سود کے باعث قرضوں پر سود کی ادائیگی معیشت کے 7.7 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران پر حملہ کیوں کیا؟ اسرائیل کا سلامتی کونسل میں حیران کن بیان
پاکستان کی معیشت پر اثرات
رپورٹ کے مطابق 2020 سے روپے کی قدر میں 71 فیصد کمی کے باعث بیرونی قرضے مقامی کرنسی میں 88 فیصد بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان کا قرضہ اپنے ہی فِسکل ریسپانسبلٹی ایکٹ کی مقررہ حد سے 10 فیصد زیادہ ہو چکا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی تقریباً معیشت کے آٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ عوام پر مزید ٹیکس لگانا کوئی حل نہیں ہے، بلکہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور شرح سود کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج کا ایف سی ہیڈکوارٹرز بنوں پر حملہ ناکام بنا دیا گیا ، 5 دہشتگرد ہلاک، سیکیورٹی فورسز کے 6جوان شہید
پالیسی سفارشات
رپورٹ میں کہا گیا کہ پالیسی ریٹ کو 11 فیصد سے گھٹا کر 9 فیصد کیا جائے، جس سے حکومت کے قرضوں پر سود کی لاگت میں 12 کھرب روپے کی کمی آسکتی ہے۔ اس سے مالی گنجائش بڑھے گی اور کاروبار بھی زیادہ مسابقتی ہوں گے۔ پاکستان کو فوری طور پر مالی نظم و ضبط اپنانا ہوگا، بصورت دیگر ملک کو مزید سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ترقیاتی اخراجات کی مشکلات
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس ترقیاتی اخراجات کے لیے مالی گنجائش نہیں ہے، بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری یا بحالی منصوبوں کے لیے مالی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔