پاکستانی سکالر کا بگ ڈیٹا میں چین-پاکستان تبادلوں کو آگے بڑھانے کا وژن

چین میں پاکستانی دانشور
گوئی یانگ(شِنہوا) کی 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی بلٹ ٹرین پر ایک ہموار فائیو جی کنکشن نے پاکستانی پی ایچ ڈی طالب علم عبید الرحمٰن کیلئے ایک نیا وژن پیش کیا۔ یہ لمحہ نہ صرف ایک تکنیکی کامیابی تھی بلکہ اس نے چین اور پاکستان کے درمیان ٹیکنالوجی کے تبادلے کی راہ میں نئی امیدیں پیدا کیں۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوبر سعید الرحمان المعروف ڈکی بھائی کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 4 روز کی توسیع
تعلیمی پس منظر
عبید، چائنہ ہواژونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سائبر سکیورٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ انہوں نے ستمبر 2023 میں چین کا دورہ کیا اور وہاں کی جدید ٹیکنالوجی کو دیکھ کر متاثر ہوئے۔ انہیں احساس ہوا کہ چین人工 ذہانت (اے آئی) میں بہت آگے ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے یہاں آنا منتخب کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں خوفناک ٹریفک حادثے میں 7 پاکستانی عمرہ زائرین جاں بحق
فائیو جی کا خواب
چند سال پہلے، عبید نے محسوس کیا کہ تیز رفتار ٹرینوں پر مستحکم فائیو جی سروس کا حصول ایک خواب تھا۔ انہوں نے چین میں فائیو جی کی دستیابی کا گہرائی سے مشاہدہ کیا، جہاں یہ تقریباً ہر جگہ دستیاب تھی۔ اس ٹیکنالوجی کی موجودگی نے ان کی دلچسپی کو مزید بڑھایا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا شنگھائی ایکسپیریمنٹل سکول کا دورہ، مختلف شعبوں کا مشاہدہ
بین الاقوامی نمائش کا مشاہدہ
گزشتہ ماہ، گوئی یانگ میں 2025 چائنہ انٹرنیشنل بگ ڈیٹا انڈسٹری ایکسپو میں شامل ہونے کا موقع ملا، جہاں انہوں نے مصنوعی ذہانت کی عالمی کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کی۔ عبید نے سمجھایا کہ بگ ڈیٹا کی موجودگی نے مصنوعی ذہانت کو مزید مضبوط اور موثر بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا مقدمات کا سامنا کرنے والے اپنے کارکنوں کیلئے پلیڈر مقرر کرنے کا اعلان
چین-پاکستان تعلقات
چین-پاکستان تعلقات کی مضبوطی کے باوجود، عبید نے دیکھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کام کرنے والی کمپنیوں میں خلا موجود ہے۔ وہ اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، خصوصاً پاکستان کی ویب 3.0 اور بلاک چین میں دلچسپی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔
مقصد اور مستقبل کی امیدیں
عبید نے شِنہوا کو بتایا کہ ان کا مقصد چین میں سیکھے ہوئے تجربات اور ٹیکنالوجی کو پاکستان واپس لے جانا ہے۔ انہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ ثقافت، سائنس، اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی بڑھتی ہوئی صنعت کا حصہ بن سکیں۔