انگریز سرکار نے بہاولپور کے نواب صاحب سے پٹری اکھاڑ کر برطانیہ بھجنے کی رسمی سی اجازت مانگی، یہ محض کاغذی کارروائی تھی کیونکہ انگریز مالکِ کل تھے۔

تاریخی پس منظر
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 262
1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ بری طرح اس جنگ میں ملوث ہو گیا۔ اس جنگ سے نبٹنے کے لیے اسے بے شمار، ٹینکوں، توپوں اور دیگر آلات حرب وغیرہ بنانے کی ضرورت پڑی، تو فولاد کے حصول کے لیے ان کی نظر سب سے پہلے اپنی نوآبادیوں پر ہی پڑی۔ ان کے خیال میں ایسی ہی کئی بے آباد سی لائنوں کو ختم کر کے یہ لوہا برطانیہ بھیجا جا سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر مملکت حذیفہ رحمان نے بیجنگ میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں ”پاک چین ثقافتی کوریڈور“ کی تجویز دے دی
اجازت اور تباہی کا منصوبہ
انگریز سرکار نے بہاولپور کے نواب صاحب سے یہ پٹری اکھاڑ کر اسے برطانیہ بھجنے کی رسمی سی اجازت مانگی۔ یہ محض کاغذی کارروائی تھی کیونکہ انگریز مالکِ کل تھے، لیکن یہ سارا علاقہ ان نوابوں ہی کی ریاست میں شامل تھا۔ نواب صاحب نے کچھ پس و پیش کے بعد اسے اس شرط پر انگریزوں کو یہ پٹری اکھاڑنے کی اجازت دے دی کہ جنگ ختم ہونے کے فوراً بعد اسے دوبارہ بچھا کر فعال کر دیا جائے گا:
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات میں پیکا ایکٹ کے تحت 372 غیر قانونی مقدمات درج ہونے کا انکشاف
جنگ کے بعد کی حقیقت
مگر ایسا نہ ہو سکا۔ جنگ ختم ہوئی تو مالی اور عسکری طور پر برطانیہ بہت کمزور ہو چکا تھا اور انھیں نوشتہ دیوار صاف نظر آ رہا تھا کہ بہت جلد ان کو اپنے یہ نوآبادیاتی علاقے چھوڑنا پڑیں گے۔ اس لیے اب اس کی ترجیحات بھی بدل گئی تھیں اور انھوں نے اس لائن کی تعمیر نو کا ارادہ بھی ترک کر دیا اور نواب صاحب کی بار بار یاد دہانیوں کے باوجود انھوں نے اس کام میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔
یہ بھی پڑھیں: اس کھلاڑی کو ڈراپ کریں، بھارتی شائقین پہلے ٹیسٹ میچ میں خراب کارکردگی پر پھٹ پڑے
آزادی اور نئے افق
اس دوران برطانیہ نے ہندوستان اور پاکستان کو آزادی کے پروانے دے کر اپنا بوریا بستر سمیٹا اور حکومتیں ان کے حوالے کر کے واپس چلا گیا، کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ کسانوں کی مسلسل محنت اور نہری پانی کی دستیابی کے بعد اب صحرائے چولستان کا یہ سارا علاقہ ہرا بھرا اور آباد ہو گیا ہے اور قدم قدم پر گاؤں بس گئے ہیں۔ اس زمانے کے چھوٹے چھوٹے گاؤں اب قصبے اور قصبے بڑے شہروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کردی
نئی سڑک اور سہولیات
پھر اسی متروک لائن کے ساتھ ساتھ ہی فورٹ عباس سے بہاول پور شہر تک ایک خوبصورت اور وسیع و عریض سڑک بھی بن گئی اور یوں فورٹ عباس سے بہاولپور کا فاصلہ سمٹ کر اب محض 2 گھنٹے کا رہ گیا ہے۔ جو ہمارے بچپن اور لڑکپن میں ریل گاڑی سے 10 گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک فضائیہ کی جانب سے تباہ کئے گئے بھارتی دفاعی نظام ایس 400 کی اہمیت کیا ہے؟
جدید سفر کے شاندار تجربات
ہم لوگ مرکزی لائن کی کسی بھی گاڑی سے اتر کر سمہ سٹہ سے اس ریل گاڑی میں سوار ہوتے تھے اور پھر اس کی روانگی تک تین چار گھنٹے تو لگ ہی جاتے تھے۔ گویا ایک طرح سے پورا دن ہی ضائع ہو جاتا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ یہاں کے طلبہ اپنی ہفتہ وار تعطیل گزار کر صبح کاذب کے وقت بس یا ویگن میں جا چڑھتے ہیں اور بہاولپور شہر کی اسلامیہ یونیورسٹی یا دوسرے تعلیمی اداروں میں کلاسیں شروع ہونے سے پہلے ہی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی جی دار شوخا تو اس سفر کو ڈیڑھ گھنٹے میں نبٹانے کا دعویٰ بھی کر لیتا ہے۔ ایسے ہی ایک بڑبولے کو پچھلے دنوں شدید زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا تھا، سنا تھا وہ بھی تیز رفتاری کا کوئی نیا ریکارڈ بنانے کے چکر میں اپنی ہڈیاں پسلیاں تڑوا کر یہاں پہنچا تھا.
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔