تباہ شدہ اسٹیشنوں کی عمارتیں تو ہر جگہ نظر آتی ہیں لیکن اب کوئی گاڑی سیٹی بجاتی نہیں جاتی، خوبصورت یادیں میرے حافظے میں پنجے گاڑے بیٹھی ہیں

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 263
وہاں کے مقامی لوگوں کو اب اس لائن کی کمی بھی محسوس نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اس لائن پر گاڑیاں چلتی دیکھنے والے اکثر لوگ تو کب کے ملک عدم کو سدھار گئے، اس کے بعد آنے والوں کی بلا جانے کہ یہاں کبھی جیتی جاگتی ریلوے لائن بھی ہوا کرتی تھی جس پر سچ مچ کی ریل گاڑیاں دوڑتی پھرتی تھیں۔ اب یہ عالم ہے کہ اس علاقے میں اکھاڑی گئی اور تباہ شدہ پٹری کے آثار اور برباد اسٹیشنوں کی عمارتیں تو ہر سو نظر آتی ہیں لیکن اب وہاں سے کوئی گاڑی بھی سیٹی بجاتی ہوئی نہیں جاتی۔ مقامی علاقے کے کچھ پرانے بچ جانے والے باسیوں کو زندگی بھر اس بات کا گلہ رہا کہ ان کا گاڑی میں سفر کرنے کا چاؤ ابھی پوری طرح اترا بھی نہ تھا کہ یہ گاڑی بند بھی ہو گئی۔ یہ غالباً پاکستانی علاقے میں چلنے والی پہلی یا دوسری ریل گاڑی تھی جو تنصیب کے محض پانچ سال بعد ہی ختم کر دی گئی تھی۔ کچھ عمر رسیدہ افراد جنھوں نے اپنے بچپن میں یہاں گاڑیوں کو بھاگتے دوڑتے دیکھا تھا وہ آج بھی اس کو بھلا نہیں پائے اور اس علاقے سے سفر کرتے ہوئے نئی نسل کو اس ریل کے خوابناک سفر کی خوبصورت داستانیں سناتے نہیں تھکتے ہیں، جن کو بیان کرنے والا آخر میں خود بھی آب دیدہ ہو کر خاموش ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی کی داستان
بدقسمتی سے سمہ سٹہ اس لحاظ سے بھی بے توقیر ہوا کہ قریب ہی واقع ایک بڑا مصروف اور خوبصورت بہاولپور کا ریلوے اسٹیشن تھا، جسے اصولی طور پر تو جنکشن ہونا چاہیے تھا لیکن تکنیکی وجوہات کی بنا پر سمہ سٹہ کو ہی یہ اعزاز دیا گیا تھا۔ اب اس کے خاتمے کے بعد اب اس علاقے میں بہاولپور ہی مرکزی لائن کا معتبر اسٹیشن ٹھہرا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ وہ اسٹیشن ہے جہاں سے وہ اپنی اور اپنے ہی ایک اور ضلع بہاولنگر کی کل 8 تحصیلوں کو ریل کی سہولت نہ دے سکا۔ جبکہ دوسری طرف اس کی پہنچ کراچی سے پشاور تک ہے جہاں سے ہر سمت جانے والی گاڑیاں با آسانی مل جاتی ہیں۔ سمہ سٹہ جنکشن، جس کے آنے کے ہم لوگ گھنٹوں منتظر رہتے تھے اب چپکے سے آتا ہے اور چٹکی بجاتے گزر جاتا ہے۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے مسافر پلیٹ فارم پر لگے ہوئے بورڈپر لکھے نام کو بھی پڑھنا گوارا نہیں کرتے۔
یادوں کا سفر
یہاں 4 پٹریوں کے بتدریج عروج اور زوال کا نوحہ تو اب تمام ہوتا ہے، لیکن ان سے جڑی ہوئی میرے بچپن کی خوبصورت یادیں میرے حافظے میں پنجے گاڑے بیٹھی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ نہ ہوتیں تو یہ کتاب لکھنے کا کوئی جواز میرے پاس تو نہیں تھا۔ ریل گاڑیوں سے میری محبت کا یہ عالم ہے کہ میری کوئی کتاب ریل گاڑی کا ذکر کیے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ اور خود پاکستان میں یا بیرون ملک، کہیں بھی سفر کرنے کے لیے میری اولین ترجیح ریل گاڑی ہی ہوتی ہے۔ ایک بے نام سی محبت ہو گئی ہے ان دوڑتے پھرتے ریل کے انجنوں سے خصوصاً بھاپ سے چلنے والا انجن جب پوری گھڑگھڑاہٹ کے ساتھ سیٹیاں بجاتا ہوا میرے دماغ کے کسی کونے سے نکلتا ہے تو پھر اگلے کئی گھنٹے تک ذہن پر اس طرح چھایا رہتا ہے کہ اور کچھ سوچنے نہیں دیتا۔ اسی طرح ریل گاڑیوں کے ڈبے بھی اس کے پیچھے دگڑ دگڑ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو ایک عجیب سا نشہ طاری ہو جاتا ہے۔ اس قصے کو آگے چل کر کم از کم ایک دفعہ تو اور چھیڑوں گا کہ تشنگی ابھی کچھ باقی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔