اوئے سپ بند دوکان کے شیڈ کے نیچے بیٹھے چار پانچ بندے بھاگ اٹھے اور کئی سو میٹر بھاگتے ہی رہے، حماقتوں کو یاد کرتے ہیں تو خوب ہنسی آتی ہے۔

مصنف: شہزاد احمد حمید

قسط: 321

الطاف صاحب کا تعارف

صاحب کے ایک اور دوست الطاف صاحب کا تعلق سرائے عالم گیر کے کسی گاؤں سے تھا۔ یہ گارڈن کالج پنڈی میں صاحب کے کلاس فیلو تھے۔ ایک بار لاہور آ ئے اور مجھے کہنے لگے؛ “شہزاد صاحب! بشارت آپ سے بہت پیار کرتا ہے۔” میں نے پوچھا؛ “سر! آپ کو کیسے پتہ چلا۔” جواب دیا؛ “میں آج ٹی ایم او سرائے عالم گیر ریاض(باس) کے تبادلے کے لئے بشارت سے گھر پر ملا تھا۔ تبادلے کی بات کی تو کہنے لگے؛ “یار! وہ شہزاد صاحب کے باس اور دوست ہیں۔ اس تبادلے سے وہ مجھ سے ناراض ہو گا۔ ٹی ایم او سرائے کو آپ کے حوالے سے بتا دیا جائے گا آپ کو شکایت نہیں ہو گی。” میں نے جواب دیا؛ “سر! یہ صاحب کا بڑا پن ہے۔ وہ باس بھی ہیں اور بڑے بھائی بھی。” میں نے ریاض صاحب(باس) کو فون کر کے الطاف صاحب کے بارے آگاہ کردیا تھا۔ پھر انہیں کوئی شکایت نہ ہوئی۔ باس اور لالہ اعجاز ایک بار لاہور آئے تو ان کی صاحب سے ملاقات کرائی تھی۔ صاحب نے انہیں چائے پلاکر اور کچھ دیر گپ لگا کر میری عزت افضائی کی۔ ان کے جانے کے بعد کہنے لگے؛ “آپ کے دوست بھی آپ کی طرح درویش ہی ہیں۔”

فیصل آباد کا بھارو

فیصل آباد کا رہنے والا محسن راشد مرحوم کا دوست تھا اور ہمارا بھارو تھا۔ راشد کی وساطت سے ہی محسن کی صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ امیر آدمی تھا۔ فیصل آباد کے گردونواح میں لینڈ ڈویلپمنٹ کا کاروبار کرتا تھا۔ مجھے سمیت دفتر کے سارے عملے سے اُس کے اچھے تعلقات تھے۔ امریکی شہریت حاصل کرنے کے لئے اُس نے وہاں شادی کی اور پاکستان آتے ہوئے اپنی نشانی ایک بیٹی وہیں چھوڑ آیا تھا جو وقت اور حالات کے رحم و کرم پر ہی ہو گی۔ ہم اپنے مفاد کے لئے وہ سب کچھ کر جاتے ہیں جس کا تصور کم کم ہی ممکن ہے۔

مشہود کی شرارتیں

مشہود میں جہاں ذھانت اور متانت تھی وہیں وہ خوب شرارتی بھی تھا۔ گفتگو کا وہ بادشاہ تھا اور صاحب کے ساتھ کام کرنے سے پہلے وہ فیصل صالح حیات اور چوہدری ممتاز حسین کا پی آر او رہ چکا تھا۔ یہ دونوں بھی پنجاب کی سیاسی تاریخ کے بڑے نام تھے۔ بی بی شہید کے ساتھ اس کی ایک یادگار تصویر بھی تھی جس میں اس کے ہاتھ پر رکھے کاغذ پر بی بی اپنے ہاتھ سے کچھ لکھ رہی تھی۔ اس کی شرارتوں میں ایک “تار ڈالنا” بھی تھا۔ یہ بھی ایک فن تھا جس میں تار ڈالنے والے کا اعتماد ہی سب سے بڑا اثاثہ ہوتا تھا۔ تار ڈالنے سے مراد آپ کسی مرد یا عورت کو اتنا کنفیوز کر دیں کہ جو آپ کہہ رہے ہوں اسے وہ سچ مان جائے۔ یہ فن اس نے اکرم بٹ سے سیکھا تھا۔ بٹ بھی بڑا ہنس مکھ اور زندہ دل انسان تھا۔ مشہود جب تار ڈالتا تو صاحب سمیت سبھی بہت محظوظ ہوتے تھے۔

ایک دلچسپ واقعہ

ایک بار اُس نے دفتر آئی ایم پی اے مصباح کو کب کو تار یہ کہہ کر ڈالی کہ گردن پر کیڑا ہے۔ اس بیچاری نے گردن پر ہاتھ پھیرا تو کہنے لگا قمیض میں چلا گیا۔ اس بیچاری نے باتھ روم جا کر کپڑے اتارے، جھاڑے، واپس آ گئی تو کہنے لگی؛ “نہیں کچھ نہیں تھا۔” بولا؛ “یہ دیکھیں گرا پڑا ہے।” وہ اور ڈر گئی تھی۔ اسی طرح پنڈی ایک جلسے کے دوران یہی کام یہ کہہ کر کیا؛ “اوئے سپ۔” بند دوکان کے شیڈ کے نیچے بیٹھے چار پانچ بندے بھاگ اٹھے اور کئی سو میٹر بھاگتے ہی رہے تبھی انہوں نے خیالی سانپ سے جان بچائی تھی۔ بھاگتے ہوئے ان میں سے ایک بیچارہ نالی میں گر گیا تھا۔ عمر کے اس حصے میں جب بیتے دنوں کی حماقتوں کو یاد کرتے ہیں تو خوب ہنسی آتی ہے۔ یہ بیوقوفیاں تھیں مگر سچی۔ (جاری ہے)

نوٹ

یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...