اڑتی دھول اورانجن کے دھوئیں سے جو چیز مسافروں کے چہرے پر چپکتی اس کا رنگ پیا کے چڑھے پیار کے رنگ سے بھی کہیں زیادہ گہرا ہوتا

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 281
کھڑکیاں ہمیشہ کھلی رکھنے کی خواہش تقریباً سب ہی لوگوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ کھڑکیاں کھلی رہیں تاکہ پنکھوں کے علاوہ بھی انہیں کھڑکی سے اضافی ہوا ملتی رہے۔ جب ہوا فراٹے بھرتی ہوئی اندر آتی تو اس کے ساتھ مٹی اور ریت بھی آتی تھی، جو مسافر کے رخساروں پر تھپڑوں کی طرح پڑتی تھیں۔ گاڑی کے سامنے کی طرف منہ کر کے بیٹھے مسافر کو یہ تھپڑ لگتے تھے جبکہ دوسرے رخ پر بیٹھنے والے اس عذاب سے سر کے پچھلے حصے پر متاثر ہوتے تھے۔
سفر کی مشکلات
لمبے سفر کے لیے گاڑیاں اکثر کئی گھنٹے تک سفر کرتی تھیں۔ اس وقت ریل کا انجن بھاپ سے چلتا تھا، جو کم بھاپ خارج کرتا لیکن دھوئیں میں کوئلے کے ذرات کو کھلی کھڑکیوں کے ذریعے اندر بھیجتا رہتا تھا۔ اس اڑتی ہوئی دھول اور دھوئیں کی آمیزش سے مسافروں کا چہرہ ایسی حالت میں آ جاتا کہ شناخت مشکل ہو جاتی، اور وہ کسی سْرمئی بندر کی جون کی طرح نظر آتے تھے۔
مسافروں کا پانی کا انتظام
منزل پر پہنچنے سے پہلے چہرے کی شناخت کے لیے پانی کے چھینٹے مارنے کی کوشش کی جاتی تھی، مگر چلتی گاڑی کے ہچکولوں اور پانی کی کمیابی کی وجہ سے صورت حال کوئی خاص بہتر نہیں ہوتی تھی۔ گاڑی کی کھڑکیاں کئی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ ان سے اندر بیٹھے بٹھائے پلیٹ فارم پر بھاگ دوڑ کرتے ہوئے خوانچے والوں سے خریداری بھی کی جا سکتی تھی۔
خواتین اور ان کے شوہر
اس وقت مستورات کے ڈبے الگ ہوا کرتے تھے، اور ہر بے قرار شوہر گاڑی رکنے پر اپنی بیگم کی کھڑکی پر نمودار ہوتا اور ان کی خیریت معلوم کرتا۔ وہ ان کے لیے پانی کی صراحی بھر کر لے آتا۔ جنکشن پر گاڑی دیر تک رکتی، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پلیٹ فارم پر کھڑکیاں کھول کر ہفتہ بھر کی مہمان نوازی بھی کرتا تھا۔
کھڑکیوں کے حادثات
ڈبے کی کھڑکیاں اوپر کی جانب کھلتی تھیں اور ایک دفعہ اوپر اٹھ جانے پر پھر نیچے نہیں آتی تھیں۔ محکمے کا مکینک یقین نہیں دلا سکتا تھا کہ گاڑی کے جھٹکے سے یہ کھڑکیاں خود بخود نیچے نہیں آ جائیں گی۔ اگر کبھی ایسا ہوتا تو بزرگ مسافر جلدی سے اپنا ہاتھ نیچے ہٹا لیتے، لیکن بعض اوقات تأخیر ہوجاتی۔ ایسے وقت میں اگر کسی بچے کا ہاتھ کچل جاتا تو وہ چیخنے لگتا اور سب مل کر کھڑکی اوپر اٹھا کر اسے عذاب سے نجات دلاتے تھے۔
ذاتی تجربات
یہ تمام حالات کی تفصیل مجھے اپنے بچپن کے تجربات کی بنا پر یاد ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔