الٹرا ماڈرن خواتین
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 322
جی سیون کی الیون
ہر انسان ہمیشہ سے ہی خوبصورت صورتوں اور مورتوں کا معترف رہا ہے۔ “جی سیون خواتین” (مشہود کی ایجاد کردہ اصطلاح سے مراد “الٹرا ماڈرن خواتین” تھیں جن کا ہمارے دفتر آنا جانا رہتا تھا۔ ایسی خواتین کی کمپنی میں انسان صرف سکون پاتا ہے یا اپنے چودہ طبق روشن کرا لیتا ہے۔ بوریت اور اداسی یہاں اجنبی ہوتی بلکہ وقتی طور پر زندگی سے نکل ہی جاتی تھیں۔ ہاں، وقت تیزی سے گزرنے کی شکایت اکثر رہتی ہے۔ ایسی خواتین سے آپ بلا جھجک کوئی بھی بات کر سکتے تھے، شرط صرف اتنی تھی کہ وہ صاحب خاتون کے مطلب کے ہوں۔ ایسی خواتین کی پہچان بلیک کافی پینا، ڈھیلے کھلے ملبوسات پہننا، سر کے بال ہوا میں لہرا کر زلفوں کا جال بچھانا، نائیٹ ڈریس ہی باہر چلے آنا، اور کبھی بھی کسی من پسند مرد کے ساتھ جانے سے انکار نہ کرنا وغیرہ۔
جی سیون کی دنیا
ایسی خواتین سے ملاقات کے چند واقعات آپ کے گوش گزار کرتا چلوں۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں اسلام آباد کا مرگلہ ٹاور بھی تباہ ہوا۔ اموات بھی ہوئیں۔ ہم راولپنڈی تھے۔ مرگلہ ٹاور کے حوالے سے بہت سی کہانیاں روز جنم لے رہی تھیں۔ ہمارا ایک تحصیل افسر پرویز حیدری بھی اسی ٹاور کا مکین تھا۔ اس نے بتایا تھا؛ “جب زلزلہ آیا تو میں 'تولیہ' میں اپنے فلیٹ سے بھاگا تھا۔” صاحب بتانے لگے؛ “عجیب زندگی تھی یہاں۔ کسی کی بیوی کسی کے ساتھ اور کسی کا مرد کسی کی عورت کے ساتھ۔ زلزلہ تو آنا ہی تھا۔” میں نے کہا؛ “سر! ایسا نہیں ہو سکتا۔” کہنے لگے؛ “آپ بھولے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی اور آپ ہیں کہ۔ اس ٹاور میں لوگوں کی اکثریت کو یہ پرواہ نہ تھی کہ کون کسی کے بارے کیا کہتا ہے؟ کس کے کس سے کیسے تعلقات ہیں؟” میں نے کہا؛ “سر! میں ماننے کو تیار نہیں۔” کہنے لگے؛ “کبوتر آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے کوئی خطرہ نہیں اور ایسی ہی بات آپ کہہ رہے ہو۔ آپ کے نہ ماننے سے کیا حقیقت بدل جائے گی؟ یہ کوئی منطق نہیں کہ اس لئے نہیں مان رہا کہ یہ سب آپ کے علم میں نہیں۔” چلیں جی سیون سے ملاتا ہوں آپ کو۔ شرط ہے کہ آپ دس منٹ بعد ہی کہیں گے کہ سر میٹنگ کا وقت ہو رہا ہے۔
اورنگ زیب نے گاڑی کا رخ ایف سیون ٹو کی طرف موڑ دیا۔ مرگلہ روڈ پر ایک بڑی کوٹھی پر پہنچنے سے پہلے وہ فون پر اپنے آنے کی اطلاع دے چکے تھے۔ یہ شاندار کوٹھی مکینوں کی خوشحالی کا ثبوت تھی۔ ہمیں ایک ملازم نما شخص ڈرائنگ روم میں بٹھاتے بولا؛ “میں فرزانہ (سبھی نام فرضی ہیں کوئی مماثلت صرف اتفاقی ہوگی) کو بلاتا ہوں۔” ڈرائنگ روم میں قیمتی اشیاء سلیقے سے سجی تھیں اور خوشبو دار موم بتیوں سے مہک رہا تھا۔ اتنے میں وہی ملازم نما شخص اور ایک چالیس سالہ کھلے سنہرے بالوں والی خاتون اپنے گیسوں میں ہاتھ پھیرتی، ڈھیلے لباس میں نیم عریاں بدن کے ساتھ داخل ہوئی۔ یہ فرزانہ تھی جس نے شاید رات والا گاؤن ہی پہنا تھا۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگیں “بڑے دن بعد آنا ہوا۔ کیسے ہو بشارت۔” اتنے میں ملازم نما شخص مظفر (اس خاتون کا خاوند تھا) بولا؛ “میں آپ لوگوں کے لئے مشروب لاتا ہوں۔” کولڈ ڈرنک آئی تو صاحب بولے؛ “مظفر! میڈم کچھ اداس اور بجھی سی ہیں۔ خیر ہے۔” کہنے لگا؛ “کچھ نہیں بشارت! میں اسے کہہ رہا تھا کہ تم جمشید کے ساتھ ہفتہ بھر کے لئے دوبئی کا چکر لگا آؤ پر یہ گلزار کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ وہ ابھی جا نہیں سکتا۔ بس اتنی سی بات ہے۔ البتہ میں نورین کے ساتھ ہفتے کے لئے کل انگلینڈ جا رہا ہوں تمھیں کچھ منگوانا تو نہیں۔” میرے ہاتھ میں کولڈ ڈرنک کا گلاس چھلکا۔ صاحب کی اور میری نظریں چار ہوئیں۔ میں نے صاحب سے کہا؛ “سر! میٹنگ کا ٹائم ہو رہا ہے۔” کولڈ ڈرنک کا گلاس بھرا ہی رہ گیا اور ہم یہاں سے نکل گئے۔ یہ ہے ہماری ایلیٹ کلاس کی دنیا۔ مجھے میری دنیا عزیز ہے۔(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








