پروفیسر صاحبہ سے ملاقات، مختلف شہروں سے خواتین و حضرات کی پاکستان میں تقریبات میں شرکت کی خواہش

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 191
انی دنوں 1960 ء کے عشرہ میں پاکستان یوتھ موومنٹ میں ہماری کولیگ / ساتھی پروفیسر شکیلہ رشید کا مجھے فون آیا اور بتایا کہ وہ اپوا ہیڈ کوارٹرز میں روزانہ صبح 10:00 بجے تا 1:00 بیٹھتی ہیں کسی روز ملاقات ہونی چاہئے۔ چنانچہ میں ان سے جا کر ملا۔ اس ملاقات میں انہوں نے ذکر کیا کہ انہیں انڈیا میں منعقد ہونے والی بہت ساری تقریبات میں شمولیت کے لیے انڈیا جانے کا موقعہ ملا ہے۔ دہلی، لدھیانہ اور بمبئی سے متعدد خواتین و حضرات کی خواہش ہے کہ انہیں بھی کسی تقریب میں پاکستان مدعو کیا جائے۔ پروفیسر صاحبہ نے اس ضمن میں تقریب منعقد کرنے میں میری مدد چاہی۔ میں نے انہیں اپنے ادارہ سٹیزن کونسل آف پاکستان کے بارے بتایا کہ کس طرح ہم قومی مسائل کے حل کے ضمن میں غور و خوض کے لیے فکری مجالس، سیمینارز وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور انہیں یقین دلایا کہ انشاء اللہ دوستوں کے مشورہ سے سٹیزن کونسل کی طرف سے ہم ایسی تقریب کا اہتمام کریں گے جس میں انڈیا سے احباب کو مدعو کیا جا سکے۔
پاک بھارت بابا گرونانک جی اور مسلم صوفیاء کے افکار میں یکجہتی سیمینار
سٹیزن کونسل کے عہدیداران ہر جمعرات کے دن دو بجے ان دنوں میرے آفس واقع 4/A مزنگ روڈ میں باہمی مشاورت کے لیے ملتے تھے۔ چنانچہ احباب سے مشورہ کے بعد میں نے پروفیسر شکیلہ رشید کو مطلع کر دیا کہ ہم نے بھارتی احباب کو مدعو کرنے کے لیے بابا گرونانک اور مسلم صوفیاء کے افکار میں یکجہتی کے پہلو پر پاک، بھارت سیمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں آئندہ جمعرات تک اجلاس عہدیداران سٹیزن کونسل سے مہمانوں کی فہرست مع پوسٹل ایڈریس طلب کی گئی تاکہ مجوزہ سیمینار کے انعقاد کی تاریخ، وقت طے کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لاہور میں طعام و قیام، مقررین کا انتخاب اور دیگر انتظامات کے بارے میں تفصیلی مشاورت ہو سکے۔ اس طرح اگلے اجلاس میں تفصیلی مشاورت کے بعد /11 مئی 2007ء کو سیمینار کا اہتمام ہمدرد سنٹر واقع سنگھم، لٹن روڈ / بیگم روڈ پر کیا گیا۔ سیمینار میں خصوصی طور پر بھارت سے تشریف لانے والے ایک درجن سے زائد خواتین و حضرات سکالرز نے شرکت کی۔ جبکہ موضوع کی مناسبت سے مہمان مقررین میں سابق ایم ایل اے سردار جگ دیو سنگھ جسوال، دانشور اور ماہر تعلیم پروفیسر مہندر سنگھ، صدر عالمی پنجابی فاؤنڈیشن امرتسر سردار بوپندر سنگھ، سردار ہرچرن سنگھ (نمائندہ انڈین ایکسپریس) اور دہلی سے خاتون سماجی کارکن بپیتا چوہدری شامل تھے۔ صدارت لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں محبوب احمد نے کی۔ جسٹس صاحب نے دلچسپ واقعات اور استدلال سے واضح کیا کہ ہمارے صوفیاء اور بابا گرونانک کے محض افکار میں ہم آہنگی اور یکجہتی نہیں بلکہ ان کے اعمال اور افعال ایک جیسے ہیں، جن سب کا مقصود اپنے مقلدین کو باہم شیر و شکر ہو کر رہنے کی ترغیب اور عملی تربیت دینا ہے تاکہ ہم کسی تفریق کے بغیر معاشرے میں ایک تسبیح کے دانوں کی طرح اکٹھے رہیں۔ انہوں نے مثالوں اور واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہی پیغام ربِ کائنات اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے جو دراصل دنیا کے سب سے بڑے صوفی، مصلح اور محبِ انسانیت ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔