زلزلے کی تباہی: انسانی المیے اور خیمہ بستیاں

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 323
ایک روز لاہور میں صاحب کی شناسا ایک خاتون ملنے آئی۔ اُس کے ساتھ اُس کا سولہ سترہ سالہ بیٹا بھی تھا۔ یہ خاتون پچھلی رات اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والا واقعہ صاحب کو سنا چکی تھی۔ اگلے روز یہ شکایت درج کرانے آئی تو صاحب بولے؛ "شہزاد صاحب! ذرا میڈم کی بات سن کر بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے۔" میڈم نے اپنے بیٹے سے کہا؛ "جانی! انکل کو ساری بات سناؤ۔" جی سیون خواتین کی گفتگو کا بھی اپنا مخصوص انداز ہے اور ان کے بچوں کا بھی۔ وہ برگر بچہ آدھی انگریزی اور آدھی اردو میں کچھ یوں بتانے لگا؛ "یو نو نا انکل، یہ بڑی ویران سی جگہ ہے۔ ہم اس ویرانے میں چلے گئے۔
پولیس آ گئی ڈالے میں۔ ایک پولیس والے نے مجھے ہی پیچھے سے پکڑا اور وہ کچھ شرمایا اور پھر ماں کے کہنے پر بولا؛ "سو ڈرٹی پولیس والا انکل"۔ میں بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کر پایا تھا۔۔ البتہ آج یہ بات لکھتے خوب ہنسی کا فوارہ بہنے لگا ہے۔ میں نے صاحب کی طرف دیکھا ان کے چہرے پر بھی ہنسی تھی۔ اس بچے کی اماں بولی؛ "bashrat so sad now you do something, it was so embarrassing." میں نے کہا؛ "سر! ایس ایس پی لاہور عامر ذوالفقار سے بات کرتے ہیں لیکن یہ تو معلوم ہی نہیں کہ وہ سپاہی جس نے بدفعلی کی اس کا نام، نمبر کیا تھا اور یہ بچہ تو اسے پہچان بھی نہیں سکتا۔ بہرحال ہم ان کی درخواست عامر صاحب کو بھجوا دیتے ہیں۔"
وزیر قانون کا جواب
خاتون بولی؛ "you are law minister." صاحب نے جواب دیا؛ "میں وزیر قانون ہوں جادوگر نہیں۔" پرویز الٰہی صاحب کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔ مشہود امریکہ سے واپس آ گیا تھا اور ہم دونوں ہر دس پندرہ دن کے بعد صاحب کے ساتھ کہیں نہ کہیں گھومنے نکل جاتے۔ صاحب ہی ڈرائیو کرتے اور پھر کسی ریسٹورنٹ میں میزبانی بھی کرتے تھے۔ یہ ان کی ہم سے محبت اور اعلیٰ ظرفی تھی۔ ایسے ہی ایک روز ہم کہیں جا رہے تھے کہ صاحب کا فون بجا۔ ہم سمجھ گئے وہ کسی جی سیون سے بات کر رہے تھے۔ بات ختم ہوئی تو کہنے لگے؛ "پتہ کس کا فون تھا۔" مشہود بولا؛ "سر! جی سیون تھے۔" جواب سن کے کہنے لگے؛ "فلاں۔۔۔ خاص شخصیت کی بہو تھی۔
ڈونگا گلی والے ریسٹ ہاؤس
فرما رہی تھیں کہ ڈونگا گلی والے ریسٹ ہاؤس چند دن کے لئے چلتے ہیں۔ ہم 3 خواتین ہیں اور آپ بھی 3 دوستوں کے ساتھ آ جائیں۔ lets have fun there. کاش میں اس اہم شخصیت کا نام بھی لکھ سکتا۔
ایک خوبصورت مشیر
وزیر اعلیٰ صاحب کی ایک ایجوکیشن مشیر بلا کی خوبصورت اور جی سیون کی ممبر تھیں۔ یہ بلا کی خوبصورت ہی نہیں بلکہ، انتہائی بولڈ اور حد سے زیادہ امیر تھیں۔ ان کے میاں امریکی کروڑ پتی اور کچھ سن رسیدہ تھے اور سال میں تین چار بار ہی پاکستان آتے تھے۔ وہ جب آتے تو محترمہ کا موڈ کچھ آف ہی رہتا اور یہ ان کے جانے کی دعا کرتی تھیں۔
زلزلے کی تلخ یادیں
اکتوبر 2005ء کا زلزلہ کی کچھ تلخ یادیں؛ اس زلزلے نے پاکستان کو ہلا اور انسانی ضمیروں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک لاکھ کے قریب انسان لقمہ اجل بن گئے۔ ہزاروں مکان تباہ ہو گئے۔ لاکھوں افراد بے گھر۔ تباہی کے المناک مناظر اور قیامت صغریٰ۔
امدادی کاروائیاں
مجھے یاد ہے لالہ اعجاز مرحوم کے ایک قریبی عزیز چوہدری عباس ڈنمارک سے پندرہ لاکھ کی رقم متاثرین میں تقسیم کرنے خود آئے۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے لیپا ویلی کا انتخاب کیا۔
انسانی المیے
زلزلے کی تباہی ہر طرف پھیلی تھی۔ سڑکیں بھی متاثر تھیں اور پہاڑ بھی۔ کھلے آسمان تلے آباد خیمہ بستیاں انسانی المیے کی داستاں سناتی تھیں۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔