اسمبلی جا رہے تھے کہ صاحب کے کسی جاننے والے کا فون آیا،ہم بھی عجیب سوچ رکھنے والے ہیں واقفیت ہو تو ڈیوٹی پر معمور انسان کو غلام سمجھتے ہیں

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 325
ایک رات کا واقعہ
ایک روز رات گئے لاہور آ رہے تھے کہ میرے فون کی گھنٹی بجی۔ پنڈی کا نمبر تھا۔ میں نے فون اٹینڈ کیا تو موصوف کہنے لگے؛ "او جو آج صبح تبادلے کے لئے کہا تھا ہو گیا ہے۔" غصہ مجھے بہت آیا مگر میں نے اس پر قابو کرتے کہا؛ "بھائی جی! آج اتوار ہے۔ ابھی لاہور نہیں پہنچے اور آپ تبادلے کا پوچھ رہے ہیں۔ کچھ خیال کرو، رات کا 1 بجا ہے۔" اس نے فون بند کیا تو صاحب کو فون کر دیا۔ صاحب کی کی گئی دھلائی اسے خوب یاد رہی ہو گی۔
اسمبلی کا سفر
اسی طرح ایک روز ہم اسمبلی جا رہے تھے کہ صاحب کے کسی جاننے والے کا فون آیا۔ صاحب نے چند سکینڈ سن کر فون مجھے دیتے کہا؛ "بات کریں۔" دوسری طرف بیچارہ ٹریفک وارڈن بات کرتے کہہ رہا تھا؛ "سر! میں ان کا چالان کر چکا ہوں کہتے ہیں تو 200 روپیہ میں خود جمع کرا دیتا ہوں۔" میں نے اسے کہا فون پنڈی وال کو دو۔۔۔ "اس کی تھوڑی کلاس لی اور کہا فوراً؛ "جرمانے کی رقم جمع کراؤ۔" ہوا یوں تھا کہ وارڈن نے بتی چوک پر اس کا چالان کیا اور اس نے ٹریفک وارڈن پر رعب جھاڑتے صاحب کو فون ملا کر وارڈن کو پکڑا تے کہا؛ "ہن گل کر وزیر قانون نال۔" وہ اسمبلی آیا تو صاحب نے اسے خوب ڈانٹا تھا۔ ہم بھی عجیب سوچ رکھنے والے ہیں، اگر ہماری واقفیت ہو یا ہم بااثر ہیں تو ڈیوٹی پر معمور انسان کو انسان نہیں غلام سمجھتے ہیں۔
محترمہ شگفتہ انور ایم پی اے
ایک روز محترمہ شگفتہ انور ایم پی اے (یہ بھی مخصوص نشست پر منتخب ہوئی تھیں۔) پیشہ کی وکیل اور تعلق میرے سسرالی شہر گوجرانوالہ سے تھا۔ دوسری خواتین ایم پی اے کی نسبت یہ خاموش طبع اور کام سے کام رکھنے والی خاتون تھیں۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے انٹی کرپشن۔ (ان کے ساتھی انہیں aunty corruption کہہ کر مذاق اڑاتے تھے۔) ابتداء میں ہمارا دفتر منسٹرز بلاک میں ہی تھا۔ یہاں ہمارے ہمسائے میں ڈاکٹر شفیق منسٹر برائے ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کا دفتر تھا۔
دلچسپ واقعہ
صاحب چیف سیکرٹری کے ساتھ میٹنگ میں تھے۔ یہ خاتون نم آ نکھوں اور بڑی پریشانی کے عالم میں ہمارے دفتر آئیں۔ میں نے پوچھا: "میڈم! خیر ہے۔" بس اتنا کہنا تھا کہ وہ رونے لگیں اور سر میرے کندھے پر رکھ دیا۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ ان کو تسلی دی اور ماجرہ پوچھا۔ انہوں نے جو کچھ بتایا میرے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ کہنے لگیں; "میں منسٹر ایکسائیز سے ملنے گئی تھی۔ انہوں نے مجھے retiring room میں انتظار کا کہا۔ کچھ دیر میں آئے تو انہوں نے مجھ سے دست درازی کی کوشش کی۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر آئی ہوں۔" یہ بڑی تشویش کی بات تھی۔ میں نے انہیں تسلی دی اور retiring room میں بٹھایا۔
صاحب کی مدد
صاحب آئے تو انہیں ساری بات بتا کر کہا; "سر! میڈم! آپ کا retiring room میں انتظار کر رہی ہیں۔" میڈم نے صاحب کو ساری بات آنسو بہاتے سنائی۔ صاحب نے انہیں تسلی دی کی کہ "میں سی ایم سے بات کروں گا۔" بعد میں صاحب یہ بات سی ایم کے علم میں لائے تھے۔
ایک اہم گفتگو
وہ چلی گئی تو میں نے صاحب کو بتایا; "سر! میڈم میرے کندھے پر سر رکھ کر روتی رہی تھیں۔" کہنے لگے; "شہزاد صاحب! اللہ نے ہمارے کندھے شاید بنائے ہی اسی لئے ہیں۔ یہ کتنے دکھ اور شرم کی بات ہے کہ کوئی ایم پی اے دفتر آئے اور اُسے ایسے سلوک کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ شخص عام خاتون سے کیا کرتا ہو گا۔ لوگوں کو پتہ چلے گا تو وہ ہمارے بارے کیا سوچیں گے۔ کتنی ہی خواتین گھروں سے ہمیں ملنے آتی ہیں۔ ان کا کام ہو نہ ہو کم از کم ایک بات تو طے ہے، ہم ان سے عزت سے پیش آتے ہیں۔"
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔