ہمیں مکہ شریف پہنچنے کی جلدی تھی، میزبانوں سے گزارش کی کوئی ٹیکسی لے دی جائے، میجر صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ ساحل سمندر کی طرف لے گئے۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 193
عمرہ کی سعادت
مارچ 2007ء میں مجھے میرے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے آفس میں ایک سعودی عرب کے شہری میجر خالد ملنے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گنگا رام ہسپتال کے سینئر رجسٹرار ڈاکٹر محی الدین کی معرفت مجھ سے ملنے اور ایک قانونی مشورہ کرنے آئے ہیں۔ ان کی بیگم جو فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی فائنل ائیر ایم بی بی ایس کی طالبہ تھیں ان کو کالج کلاسوں میں اپنی کم حاضریوں کے باعث پرنسپل صاحب ان کا پنجاب یونیورسٹی امتحان کے لیے داخلہ بھیجنے سے انکاری تھے۔
میں نے فوری اپنے دوست ایڈووکیٹ عالمگیر کو فون کر کے سعودی میجر خالد کو عالمگیر ایڈووکیٹ سے ملوایا جنہوں نے ہائی کورٹ میں رٹ فائل کر کے ایک ماہ کے اندر ہائی کورٹ کی ڈائریکشن پر ان کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کروا دیا۔ میجر خالد اور ان کی بیگم میرے اخلاق سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گئے، دونوں میاں بیوی میرے گھر پر بھی تشریف لائے۔ پھر اگلے روز ہم نے دونوں میاں بیوی کو باقاعدہ اپنے گھر کھانے پر مدعو کیا۔
دونوں نے اصرار کے ساتھ ہم میاں بیوی کو جلد از جلد اگلے 3 ماہ تک ان کے پاس جدہ آنے اور عمرہ کی ادائیگی کا مشورہ دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ 15 جولائی کے بعد میجر خالد کی پوسٹنگ جدہ سے کسی دور افتادہ سعودی فوجی اڈے پر ہو جائے گی۔
میں نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر محمد اکبر چوہدری سے فون کر کے مسز میجر خالد کو پرنسپل صاحب سے ان کے آفس جا کر ملنے اور ان سے امتحان پاس کرنے کے ضمن میں رہنمائی اور ضروری ٹپس حاصل کرنے کی ہدایت کی اور اس طرح وہ ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کر کے ڈاکٹر بن کر وہ ماہ مئی کے پہلے ہفتے میں واپس سعودی عرب چلی گئیں۔
سعودی عرب جانے کا ارادہ
میری بیٹی صائمہ شادی کے بعد پاکپتن شریف میں ہوتی ہے۔ میں نے بیٹی کو بتایا کہ آئندہ ماہ مئی کے دوران ہمارا عمرہ کے لیے سعودی عرب جانے کا ارادہ ہے۔ بیٹی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی عمرہ کرنے ہمارے ساتھ جائیگی۔ چنانچہ 11 مئی کو لاہور میں پاک بھارت سیمینار کے انعقاد اور بھارتی مہمانوں کے واپس بھارت جانے کے ایک ہفتہ بعد 17 مئی کو راقم اپنی بیگم اور بیٹی کے ہمراہ فلائیٹ سے صبح ساڑھے دس بجے سوار ہو کر سہ پہر 3بجے جدہ ائیر پورٹ جا اترے۔
جدہ پہنچنے کے بعد
مسافروں کے لاؤنج میں میجر خالد ہمارے منتظر تھے۔ انہوں نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہماری کلیئرنس کروائی۔ وہ ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ سب سے پہلے میجر خالد کی بیگم ڈاکٹر صاحبہ نے ہمارا خیرمقدم کیا اور ہماری آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے ہاں ایک گھنٹہ تک جْوس، مٹھائی، پھل اور چائے نوشی سے محظوظ ہونے اور گپ شپ کرنے کے بعد ہم نے ان سے اجازت چاہی۔
ہمیں مکہ شریف پہنچنے کی جلدی تھی۔ ہم نے اپنے میزبانوں سے گزارش کی کہ ہمیں مکہ شریف جانے کے لیے کوئی پرائیویٹ ٹیکسی لے دی جائے۔ میجر صاحب اپنی فیملی کے ہمراہ ہمیں ساحل سمندر کی طرف لے گئے۔ سمندر کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم شہر کے شاپنگ مال پلازا پہنچے جہاں سے ہمارے میزبان ہمیں ایک ریسٹورنٹ لے گئے جہاں ہم نے رات کا کھانا تناول کیا۔ بعدازاں واپس گھر پہنچے۔
ڈاکٹر صاحبہ اور بچوں کو گھر چھوڑنے کے بعد میجر خالد ہمیں مکہ شریف لے جانے کے لیے روانہ ہوئے۔ قریباً ایک گھنٹے بعد ہم حرم شریف کے باہر باب خالد بن عبدالعزیز کے سامنے برلب سڑک ایک ہوٹل میں تھے۔ ہمارے کمرہ میں سامان پہنچانے کے بعد میجر خالد نے مدینہ شریف کے کسی ہوٹل کے مینجر سے بات کی اور ہمیں ہوٹل کا پتہ، مینجر کا نام اور فون نمبر لکھ کر دیا کہ مدینہ شریف جائیں تو مذکورہ درمیانہ سا ہوٹل ہماری طبع کے مطابق موزوں رہے گا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔