بریسٹ فیڈنگ نہ کرنے سے معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے، وزیر مملکت برائے صحت
اسلام آباد میں بریسٹ فیڈنگ سیمینار
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ ہی بچوں کے لیے بہترین ہے، بریسٹ فیڈنگ نہ کرانے سے معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیرمملکت برائے صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ کا کہنا تھا کہ ملک میں بچوں کی افزائش کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہے ہیں، ماں کا دودھ ہی بچوں کے لیے بہترین ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم سب مل کر اس آزمائش کو عزم و حوصلے کے ساتھ عبور کریں گے: وزیر تعلیم
آگاہی کی ضرورت
ڈاکٹر مختار بھرتھ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹیرین کو بھی اس متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے، بریسٹ فیڈنگ پر قانون سازی موجود ہے جس پر عملدرآمد کرا رہے ہیں، اسلام آباد سمیت ملک بھر میں خواتین کو آگاہی دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بریسٹ فیڈنگ نہ کرانے سے معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے، حکومت بریسٹ فیڈنگ پر مؤثر قانون سازی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ٹی اور ای کامرس سروس سیکٹر کے وفد کا لاہور چیمبر آف کامرس کا دورہ
ڈبے کے دودھ کا استعمال
خیال رہے کہ ڈبے کا دودھ صرف ماں سے محروم بچے کی ضرورت ہے لیکن فارمولا دودھ پر اربوں روپے غیر ضروری خرچ کیے جاتے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق ڈبے کا دودھ یا فارمولا ملک صرف ان بچوں کو دیا جاسکتا ہے جن کی مائیں پیدائش کے دوران یا فوراً بعد انتقال کر جائیں اور ایسے بچوں کو کسی بھی دوسری رضاعی ماں کا دودھ دستیاب نہ ہو۔ وہ تمام بچے جن کی مائیں زندہ ہوں اور اپنے بچوں کو دودھ پلاسکتی ہوں ان کو ڈبے کا دودھ پلانا ایک سنگین طبی غفلت اور انہیں اپنے ہاتھوں سے موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی کی افواہوں پر جیل ذرائع کی وضاحت آگئی
نوزائیدہ بچوں کی ضرورت
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 60 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان میں سے صرف 2 ہزار سے بھی کم نوزائیدہ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ماں کے دودھ کے بجائے متبادل دودھ کی حقیقی طبی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کی مائیں زچگی کے دوران انتقال کر جائیں، شدید بیماری میں مبتلا ہوں یا جنہیں نایاب میٹابولک امراض لاحق ہوں۔ اس کے باوجود ملک میں ہر سال 110 ارب روپے سے زائد کا فارمولا دودھ اور بچوں کی تیار شدہ غذا استعمال ہو رہی ہے جو کہ ایک تشویشناک رجحان اور غیر ضروری خرچ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدرِ مملکت آصف زرداری کا لاہور میں تیسرا روز، گورنر پنجاب سمیت کئی سیاسی شخصیات سے اہم ملاقاتیں
مارکیٹنگ کے اثرات
ماہرین صحت کے مطابق نوزائیدہ بچوں کی اصل طبی ضرورت اور فارمولا دودھ کے بڑھتے ہوئے استعمال میں بڑا فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیوں کی جارحانہ اور غیر اخلاقی مارکیٹنگ پاکستان میں ماں کے دودھ کے کلچر کو کمزور کر رہی ہے۔ دوسری جانب فارمولا دودھ کی صنعت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو زیادہ تر اسپتالوں میں تشہیر، ہیلتھ ورکرز کو دیے جانے والے تحائف اور ایسی پروموشن کی بنیاد پر ہے جو ماؤں کو گمراہ کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گرمی کی شدت، لاہور کے مرد، خواتین اور بھینسیں پانی میں کود پڑیں۔
معاشی نقصان
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ماں کا دودھ نہ پلانے کی وجہ سے ہر سال ملک کو تقریباً 2.8 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، اس میں بیماریوں کا بوجھ، علاج کے اخراجات اور بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں کمی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لورالائی واقعے میں مردہ تصور کیا جانے والا ڈیرہ غازی خان کا نوجوان زندہ نکلا
نوزائیدہ بچوں کی اموات
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی تقریباً 50 فیصد وجہ ناقص یا ناکافی دودھ پلانا ہے، خاص طور پر ڈبے کا دودھ اسہال اور نمونیا جیسی بیماریوں کو جنم دیتا ہے جو ہر سال لگ بھگ ایک لاکھ نوزائیدہ بچوں کی جان لے لیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماں کا دودھ نہ صرف مکمل غذا ہے بلکہ اس میں وہ قدرتی اجزاء، مدافعتی سیلز، اور خامرے (enzymes) موجود ہوتے ہیں جو کسی اور غذا میں نہیں پائے جاتے۔
فارمولا دودھ کی نسبت ماں کا دودھ
اس کے برعکس فارمولا دودھ میں وہ صلاحیت نہیں ہوتی اور اس کے استعمال میں صفائی کی کمی، غلط تیاری یا حد سے زیادہ خوراک جیسے مسائل بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ماں کا دودھ ہر بچے کی انفرادی ضرورت کے مطابق وقت کے ساتھ بدلتا ہے، جب کہ فارمولا دودھ ایک جیسا ہوتا ہے، جو تمام بچوں کے لیے یکساں مؤثر نہیں ہوتا۔








