گاڑی رکتے ہی مسافر پیچھے مڑ کر دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے، چلتی گاڑی میں طے کی گئی منگنیاں کسی کمزور رسے کی پینگ کی طرح تڑاک کرکے ٹوٹ جاتی ہیں

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 285

جیسے جیسے گاڑی منزل مقصود کے قریب پہنچتی ہے لوگوں میں بے چینی اور جوش و خروش بڑھتا ہی جاتا ہے۔ 2 دن کی مٹی چہرے پر جمی ہوئی ہو تو رشتے دار کیا خاک پہچانیں گے۔ اس لیے مسافر باری باری بیت الخلا میں جا کر ہاتھ منہ دھو کر کپڑے بدلتے ہیں اور خوب سرخی پاؤڈر اور خوشبو لگا کر واپس اپنی نشستوں پر تشریف رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ باہر تیزی سے گزرتے ہوئے اسٹیشنوں کے نام دیکھ کر بقایا سفر کا اندازہ لگا کر منزل کی قربت کا مسلسل اعلان کرتے جاتے ہیں تاکہ منتظر مسافروں میں بے قراری کا عنصر قائم رہے۔

سامان کی تیاری

اس دوران سامان کو سمیٹنے کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ بستر بند میں اب بغیر کسی ترتیب کے ضروری اور غیر ضروری چیزیں بھر کے اس کی پٹیاں کس کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ بچی ہوئی روٹیاں اور سالن کھڑکی سے اچھال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے جو بعض دفعہ پٹری پر کام کرتے ہوئے مزدوروں یا کسی راہگیر کے منہ یا کپڑوں پر جا پڑتیں مگر جب تک اس کو اس حادثے کا علم ہوتا اور وہ اس کا منہ بھر کے جواب دینے کی حالت میں آتا تو گاڑی ایک کلومیٹر آگے نکل چکی ہوتی۔

استیشن کی آمد

مسافر ہر طرف سے مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے اور بار بار گھڑی دیکھتے، حتٰی کہ جب گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو وہ جوش جذبات میں اٹھ کھڑے ہو جاتے اور نشستوں تلے سے سامان نکال کر باہر جمع کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ تو اتنے مضطرب ہو جاتے تھے کہ سامان کو گھسیٹ کر دروازے کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کو شاید محکمہ ریلوے پر اتنا اعتماد نہیں ہوتا اور اس بات کا دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں گاڑی انھیں اس آخری اسٹیشن پر اترنے کا موقع بھی دیتی ہے یا نہیں۔

گاڑی کا رکنا

جیسے ہی گاڑی ایک جھٹکے سے رکتی ہے تو ڈبے میں گویا بھونچال سا آجاتا ہے، ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر قدم رنجہ فرمائے۔ اسی دوران دھکم پیل کرکے قلیوں کا ایک قافلہ بھی اندر گھس آتا ہے اور اپنے اپنے شکار کے سامان پر ہاتھ رکھ کر اس پر اپنے قبضے کا اعلان جتانے لگتے ہیں۔

مسافروں کا سامان

بہر حال جب ماضی قریب اور دْکھ کے سانجھے مسافروں کا سامان نیچے اتر جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے پہلو میں کھڑی ہوئی اہلیہ کی موجودگی کا یقین کرنے کے بعد بچوں کی گنتی کرتے ہیں پھر سامان کا نگ گن کر اور ہر طرف سے مطمئن ہو کر سامان قلیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب سب لوگ اپنے ساتھ آئے ہوئے مسافروں سے طوطا چشمی اختیار کر لیتے ہیں اور اکثر تو ان کو خدا حافظ کہے بنا اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔

منتقلی کا عالم

کچھ دیر پہلے تک یہ ایک دوسرے سے دوبارہ ملنے کی قسمیں وعدے لیتے تھے، ٹیلیفون نمبروں کا تبادلہ ہوتا تھا اور کہاں اب یہ عالم کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے روادار بھی نہیں ہوتے۔ چلتی گاڑی میں طے کی گئی اپنے بیٹے بیٹیوں کی منگنیاں بھی ساون میں باندھی گئی کسی کمزور رسے کی پینگ کی طرح تڑاک کرکے ٹوٹ جاتیں۔

ٹکٹ چیکنگ

پلیٹ فارم سے باہر جانے والے دروازے پر بھی ایک ٹکٹ چیکر ہوتا، جو سب استعمال شدہ ٹکٹیں واپس لے لیتا ہے۔ یہاں پھر ایک بار بے ٹکٹے مسافروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجتی ہے۔ اس لیے وہ اس وقت تک پلیٹ فارم پر ادھر ادھر ٹہلتے پھرتے جب تک ٹکٹ چیکر اپنے کمرے میں واپس نہ چلا جاتا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...