ایک ملاقات کا سوال ہے بابا

محبت اور ملاقات
کہتے ہیں، کسی سے محبت ہوجائے تو ملاقات کا شدت سے انتظار ہوتا ہے۔ یہاں تو معاملہ ”عشق“ کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خلا میں بیماری کی صورت میں علاج کا طریقہ کیا ہے؟ کیا وہاں کوئی طبیب موجود ہے؟
سہیل آفریدی کا حالیہ دورہ
پہلے تو صرف سہیل آفریدی کی ملاقات کا ”رولا“ تھا۔ اب تو اس نے ”سارے“ ایم این ایز، ایم پی ایز اور وکلاء بلا لیے ہیں۔ کسِ کسِ کو روکو گے؟ کب تک روکو گے؟ آنے دو، ملنے دو، حکومت کو چلنے دو۔ ابھی تو ہاتھ میں ”سب“ کچھ ہے۔ کرسی کا ”شب شبا“ ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ونڈ انرجی ذرا سی منصوبہ بندی کے ساتھ بہت بڑا اثاثہ بن سکتی ہے: وزیر اعلیٰ پنجاب
ملاقات کا سوال
ایک ملاقات کا سوال ہے بابا۔ کچھ نہیں ہو گا۔ اس سوال کو حل کرو۔ جنجال نہ بناؤ۔ ان ملاقاتوں کو پیار کے سلسلوں میں تبدیل کر دو۔ بہت کچھ ملے گا، اور سب کو ملے گا۔ کھیلو اور کھیلنے دو۔
کھیل آگے بڑھ چکا۔ اڈیالہ کا ”مکین“ پہلے ہی اتنا آگے جا چکا ہے کہ واپسی مشکل ہی نہیں ناممکن لگتی ہے۔ حکومت کو تو چاہیے کہ ”اُسے“ کھل کر کھیلنے دے۔ کریز سے باہر نکل کر چوکے، چھکے لگانے دے۔ کبھی تو غلطی کرے گا اور آؤٹ ہو گا۔ ایسے بیٹسمین کے آگے تو اچھے سپنرز کو لگا دینا چاہیے۔ جو صرف ”فلائٹڈ گیندیں“ کرائیں۔ تاکہ بیٹسمین ”قدموں“ کا بھرپور استعمال کرے۔ ہٹ مارے اور گیند ہوا میں رہے۔ مگر حکومت تو ”دفاع“ پر آ گئی۔ یہ کام تو اس کا نہیں ہے۔ ”دفاع“ کا حق صرف ادارے کے پاس ہے اور وہ اپنا حق نبھاتا بھی ہے اور ”محفوظ“ بھی رکھتا ہے۔ حکومت کا کام تو ”سیاست“ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: نومولود کے انتقال پر خاتون ڈاکٹر پر ہسپتال میں بہیمانہ تشدد، گلا دبا کر مارنے کی کوشش
رانا ثنا اللہ کے بیانات
رانا ثنا اللہ صاحب نے تو حدہی کر دی۔ کہتے ہیں ”یہ کہاں لکھا ہے کہ جیل میں قید کسی سیاسی رہنما سے پارٹی کارکنوں کی ملاقات کرائی جائے۔ اگر عدالت اس حوالے سے ہدایت دے گی تو حکومت اجازت دے دے گی“۔ مان لیا، کہیں نہ لکھا۔ آپ پھر بھی اجازت دے دیتے۔ ملاقات کرا دیتے تو حکومتی ”رتبے“ میں اضافہ ہوتا۔ عدالتی حکم کے بعد بھی تو ملاقات کرانی پڑے گی۔ اس کا فیصلہ بھی کل ہو جائے گا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل لارجر بینچ کل اس کیس پر سماعت کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی اے نے غیرقانونی وی پی اینز کی بندش کے دوسرے ٹرائل کا آغاز کردیا
وفاقی حکومت اور صوبائی تعلقات
وفاق اور خیبر پختونخوا میں معاملات سلجھنے کے بجائے دن بدن الجھتے جا رہے ہیں۔ سیاسی رابطہ کاری تو دور کی بات، دہشت گردی جیسے حساس مسئلے پر بھی عدم اعتماد کا فقدان ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے بلٹ پروف گاڑیاں آئی جی خیبر پختونخوا کے حوالے کی گئیں۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے ان گاڑیوں کو ”ناکارہ“ قرار دے کر وفاق کو واپس کر دیا۔ سوشل میڈیا رابطے کی ویب سائٹ ’’ایکس‘‘ پر یہ گاڑیاں وزیراعلیٰ بلوچستان نے مانگ لیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ گاڑیاں بلوچستان حکومت کو دے ڈالیں۔
یہ بھی پڑھیں: سستی گاڑیوں اور سرمایہ کاری کے نام پر شہریوں کو لوٹنے والے گروہ کا اہم کارندہ گرفتار
سیاسی مخالفت اور چیلنجز
یہ ساری سیاست ٹی وی پر اور ’’ ایکس‘‘ پر ہو رہی ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے تو سہیل آفریدی کو ”بزدار ٹو“ قرار دے دیا ہے۔ کہتے ہیں ”خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ کی سوچ بچگانہ ہے، وہ بانی پی ٹی آئی کو خوش کرنے کیلئے ڈرامے کر رہے ہیں“۔ یہ ڈرامہ کتنا حقیقت اور کتنا فسانہ ہے، 24اکتوبر سے پتہ چل جائے گا۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی جمعہ سے عوامی رابطہ مہم شروع کر رہے ہیں۔ چارسدہ میں بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کریں گے۔ 25اکتوبر کو ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں امن جرگے کی سربراہی کریں گے۔ 26 اکتوبر کو ضلع کرک میں عوامی طاقت کا مظاہرہ ہوگا۔ ان دوروں میں وزیراعلیٰ سہیل آفریدی 9مئی اور 26نومبر کے شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات بھی کریں گے اور ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ایران دوستی کا نیاباب، بارڈر کھلا رکھنے سے متعلق بڑا فیصلہ
سیاسی گرمی اور چیلنجز
جیسے جیسے موسم میں خنکی بڑھ رہی ہے، سیاسی گرمی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عدالتی اور سیاسی محاذ گرم ہونے جا رہے ہیں۔ امن و امان جیسے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سب موجود تھے، صرف وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے شرکت نہیں کی۔ ایسی صورتحال میں وفاقی حکومت کو مزید ”بردباری“ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ صوبہ خیبرپختونخوا پہلے ہی دہشت گردی کی آگ میں سلگ رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو ایک بار پھر بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کسی قسم کا کوئی بھی ”رِسک“ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی کو ساتھ بٹھانا ہو گا۔ انہیں ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ ان سے بات کرنا ہو گی۔ وفاقی حکومت کو ہی کرنا ہو گی۔ ایسا کرنے سے کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کسی صوبے کا نہیں بلکہ ہمارے ملک کا معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 2011 میں لاہور میں دو نوجوان لڑکوں کے قتل میں ملوث امریکی سیکیورٹی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کی اصل کہانی
سیاسی رسک اور چیلنجز
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایک مذہبی گروہ کے مظاہرے کو تو ٹال دیا مگر اس ”خطرے“ سے جان نہیں چھوٹے گی۔ سیاسی محاذ پر کمزور گرفت سے نقصان کسی اور نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ہوگا۔ پیپلزپارٹی سے ”آنکھ مچولی“ کا کھیل ابھی بند ہوا ہے۔ خیبرپختونخوا کو بھی سنبھالنا ہو گا۔ اور یہ بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ہی کرنا ہو گا۔ پیپلزپارٹی تو پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرا دینی چاہیے۔ محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنا دینا چاہیے۔ سب کے مطالبات اور سارے مطالبات صرف مسلم لیگ( ن) سے ہیں。
آخری خیال
تحریک انصاف اگر ”عشق ِعمران“ میں مبتلا ہے تو رہنے دیں۔ وہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو کرا دیں۔ آپ کے پاس کرسی ہے، ”شب شبا“ ہے، اسے چلنے دیں۔ اڈیالہ کے مکین کو کھل کر کھیلنے دیں۔ وہ کھل کر کھیلے گا تو ”چانس“ ملے گا۔ اور سب کو ”چانس“ ملے گا۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں