خواتین افسران میں کرپشن کا رجحان
خواتین افسران میں مالی کرپشن
خواتین افسران میں مالی کرپشن کا ریٹ اور رجحان مرد افسران سے کہیں زیادہ ہے۔ خواتین افسران کی معزز شہریوں کے ساتھ بدتمیزی اور تحقیر آمیز رویہ عام ہے جبکہ اپنے ماتحت افسران اور سٹاف کے ساتھ بھی انتہائی ہتک آمیز سلوک کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری اسکیم کے تحت حج واجبات کی دوسری قسط جمع کرانے کا کل آخری دن
عمومی رائے اور بدعنوانی
خواتین افسران کے بارے میں عمومی رائے ہے کہ یہ مسائل کا حل کرنے کے بجائے "ٹربل میکرز" کا کردار ادا کرتی ہیں۔ بڑی تعداد میں خواتین افسران کمائی والی سیٹوں پر منشی بن کر پیسے اکٹھے کرتی ہیں اور آگے تک پہنچاتی ہیں۔ تاہم، ان کی اکثریت آج بھی سرکاری نوکری کو عزت اور رزق حلال کا ذریعہ سمجھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈائیلاگ ہو گا نہیں کرنا پڑے گا، چیزوں کو خراب کرنے میں پی ٹی آئی کا اپنا بڑا ہاتھ ہے : گورنر پنجاب
کرپشن کی رفتار
خواتین افسران میں سے تقریباً 30 سے 35 فیصد نے کرپشن کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ جبکہ 3 سے 4 فیصد کی بہت محدود تعداد بیوروکریٹک پارٹی گروپ جوائن کرچکی ہے۔ بہت سی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ اگر خواتین افسران اے سی، اے ڈی سی آر یا ڈی سی ہیں تو ان کا ہیڈ کلرک "سیٹ" چلا رہا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئرلینڈ سیریز کے لیے پاکستان ویمن ٹیم کا 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان
بدعنوانی کی مثالیں
ایک خاتون افسر نے اپنے بیج میٹ سے جلدی کام کرنے کے پیسے مانگ لئے اور احسان بھی جتلایا۔ اسی طرح ایک اتھارٹی کی سربراہ خاتون افسر نے ایک کام کے چالیس لاکھ روپے مانگے۔ ایسے مواقع پر اعلیٰ افسران تک شکایت بھی پہنچتی ہے، لیکن ان کا موقف ہمیشہ مضبوط رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: زیارت میں سیاحتی مقام سے اسسٹنٹ کمشنر اور بیٹے کا اغوا
کاروباری تعلقات
بہت سی خواتین افسران کے شوہر اپنے بیویوں کے سرکاری دفاتر میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ دبنگ افسران کو مشہور کیا جاتا ہے کہ وہ کسی کی بات نہیں سنتیں، اور ان کا سارا لین دین مخصوص چھوٹے ملازم کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: علیمہ خان کے تیسری بار ناقابل ضمانت وارنٹ جاری، گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
ترقی کی رفتار اور پریشانیاں
خوش آئند بات یہ ہے کہ خواتین افسران میں سے بمشکل 3 سے 4 فیصد نے اس راستے کو اپنایا ہے، لیکن پارٹی گروپ والی افسران کی ترقی کی رفتار باقیوں کو متاثر کرسکتی ہے۔ وہ نہ صرف خود پارٹی گروپ جوائن کرتی ہیں بلکہ دیگر خواتین افسران کو بھی جوائن کروانے کی پیشکش کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ججز اپنی صفوں میں طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں، جسٹس منصور علی شاہ
مرد و زن کا رویہ
فرسٹ جنریشن خواتین افسران خود کو ماورائی مخلوق سمجھتی ہیں، جبکہ ماتحت عملے اور معزز شہریوں سے بدتمیزی کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔ میرٹ پر کام کرنے والی خواتین کو اکثر غیر مطلوبہ پوسٹنگز دی جاتی ہیں۔
بچنے کی ضرورت
ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین افسران کی کپیسٹی بلڈنگ، پبلک ریلیشنز اور نفسیاتی تربیت پر توجہ دی جائے۔ خواتین افسران کو مشرقی معاشرے میں خواتین کے احترام کا خیال رکھنا چاہئے، نہ کہ ہر برائی کا دفاع "خاتون کارڈ" کے ذریعے کریں۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔








