معمولی جرائم میں قید نوجوان اور بوڑھے قیدی، حکومت کی رعایت کے انتظار میں، صاحب کے خطاب سے مایوسی

مصنف کی معلومات

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 335

یہ بھی پڑھیں: عارف والا میں بھائی نے غیرت کے نام پر بہن کو قتل کردیا

بیڈ منٹن کورٹ لاہور ہائی کورٹ

ہائی کورٹ لاہور میں وکلاء کے لئے بیڈ منٹن کورٹ تعمیر ہو رہا تھا۔ اس کی سلو تعمیر کی شکایت وکلاء نے کی تو صاحب خود معائنہ کے لئے پہنچ گئے۔ شیخ احسان اسسٹنٹ انجینئر تھے، خاندانی انسان۔ صاحب نے انہیں ہلکی سی ڈوز دی اور یہ کام وقت سے چند دن پہلے ہی اختتام پزیر ہوا۔ شیخ احسان جتنے کمال کے یار دوست انسان تھے اتنے ہی باکمال کک۔ افسوس یہ دوران سروس انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الہ راجعون۔ ان کے بھائی شیخ فضل بھی ہمارے ہی محکمہ میں انجینئر تھے۔ جب میں ڈائریکٹر آ کیڈمی لالہ موسیٰ تھا تو یہ ایکسین گجرات تھے۔ درویش انسان تھے۔ بھابھی نبیلہ (مسز احسان) بھی سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ ان سے آج بھی رابطہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جب ایک برطانوی فوجی افسر نے پاکستان کے حق میں بغاوت کی

لبرٹی مارکیٹ

لبرٹی مارکیٹ لاہور کی اس زمانے میں "لبرٹی مارکیٹ ایسوسی ایشن" کی قیادت جن 3 نام میاں زاہد جاوید، صفدر بٹ ہی میرے حافظے میں رہ گئے ہیں۔ سی ایم کی خواہش پر صاحب سے ملنے ہمارے دفتر آئی اور پھر یہ صاحب کے اخلاق اور توجہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ اکثر چلے آتے تھے۔ سبھی سلجھے ہوئے اور کامیاب بزنس مین تھے۔ یہ لبرٹی مارکیٹ میں جدت لانے کے خواہاں اور یہاں پارکنگ کی بہتر سہولیات چاہتے تھے۔ اس دور میں موٹریں دوکانوں کے آگے پارک کی جاتی تھیں اور خریداری کے لئے آنے والی خواتین کو کئی بار پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ ویسے بھی ہمارے بس میں ہو تو ہم موٹر ہی دوکان کے اندر لے جائیں کہ ہم دکھاوے کے مارے لوگ بھی ہیں۔ صاحب کو تو بس موقع چاہیے تھا کوئی innovative کام کرنے کا۔ لہٰذا لبرٹی مارکیٹ کی آج کا پارکنگ ایریا اور لبرٹی مارکیٹ کی دوکانوں کے سامنے ہٹ نما کافی شاپس اور چھوٹے ہٹ نما ٹھیلوں کی منصوبہ بندی صاحب کا ہی آئیڈیا تھا۔ صاحب کی سفارش پر حکومت پنجاب نے فنڈز مہیا کئے۔ یہ پارکنگ بنی تو اس کا افتتاح بھی صاحب نے کیا۔ آج کی لبرٹی مارکیٹ کی جدت صاحب کے ویثرن اور بالائے افراد کی محنت کا ثمر ہے۔ میاں جاوید سے تو آج بھی کبھی کبھار رابطہ ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غیرملکی فوڈ چین میں توڑ پھوڑ کے ملزمان کو چھڑانے کے کیس میں گرفتار ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم

اڈیالہ جیل میں

یوم آزادی 14 اگست کی تقریب اڈیالہ جیل راولپنڈی میں منعقد ہوتی تھی۔ ایک سال اس تقریب کے مہمان خصوصی صاحب تھے۔ جیل یاترا کا میرا پہلے اتفاق تھا۔ بیسویں فٹ اونچی دیوار کے دیو ہیکل گیٹ سے گزر کر جیل کے اندر پہنچے تو "کوری ڈور" میں بڑی بڑی مونچھوں، لمبے اونچے قد اور سرخ آنکھوں والے جیل سپرٹنڈنٹ نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ کئی فٹ اونچی بیرونی دیوار کے اندر بھی اونچی دیوار تھی اور اس سے آگے قیدیوں کی بیرکس۔ جیل کا ماحول اداس اور ڈراؤنا تھا۔ جیلروں کے چہروں اور یہاں کے در و دیوار پر عجیب سی دہشت اور وہشت تھی۔ سپرنٹنڈنٹ کا دفتر بھی رعب و دبدبے کا آئینہ دار تھا۔ جیل کے شپ شپا(ٹھاٹھ) کے ساتھ اس ہال کی طرف بڑھے جہاں جشن آزادی کی تقریب کا بندوبست تھا۔ آہ جشن آزادی، اجنبی اور ڈرانے والا ماحول۔ اس ماحول کو دیکھنے والا شاید جرم کرنے کا تصور بھی نہ کرے۔ ہال میں بیٹھے قیدی ہماری آمد پر کھڑے ہوئے اور دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ ناجانے کہاں سے یہ خیال میرے ذھن میں عود آیا کہ "آزادی کا کیسا جشن ان قیدیوں کے لئے۔" ہمارے سامنے معمولی جرائم میں قید نوجوان اور بوڑھے قیدی آس لگائے تھے کہ حکومت ان کی قید کے حوالے سے کچھ رعائیت کا اعلان کرے گی۔ ان کے لئے صاحب کا خطاب اور جیل کا ماحول مزید مایوسی ہی پھیلانے کا باعث تھا۔ جاری ہے

نوٹ

یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...