جو نیکی بتائے بغیر کی جائے اس کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے، پاسپورٹوں پر نذرانہ پیش کئے بغیر ٹھپے لگ گئے، باہر نکلتے ہی بھارتی قلیوں نے ہمیں گھیر لیا
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 205
چنانچہ خواجہ صاحب نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک تو مصروفیت بہت بڑھ گئی ہے دوسرا یہ کہ میں نے دل میں عہد کر رکھا تھا کہ بحالی کے بعد سب سے پہلے غیر ملکی دورہ میں خانہ خدا اور دیار حبیبؐ پر عاجزانہ حاضری دونگا۔ حبیب علی صاحب کا لطیفہ الگ ہے ان کا ویزہ ہمارے وفد کے رکن کے طور پر پاسپورٹ پر لگ کر آ گیا تھا۔ بھارت رخصتی سے عین 2 دن قبل حبیب صاحب کے اہل خانہ نے ان کا بائیکاٹ کر دیا اور شرط رکھی کہ یہ بائیکاٹ صرف اسی وقت ختم ہو گا جب وہ بھارت جانے کا ارادہ ترک کر دیں گے۔ ان کے اہلِ خانہ کا خیال تھا کہ بھارت جانے کے لیے وقت مناسب نہیں ہے کیونکہ بمبئی دھماکوں کے زیر اثر بھارت میں پاکستان اور پاکستانی فنکاروں کے خلاف نفرت عروج پر ہے۔ اب کیونکہ دل کا معاملہ بیچ میں آن پڑا تھا لہٰذا ہم نے حبیب علی کو بے دلی سے ان کے اہلِ خانہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس وفد کی 11 رکنی ٹیم صرف نو کھلاڑیوں کے ساتھ بھارت روانہ ہوئی۔
واہگہ کی آمد
واہگہ پہنچتے ہی ہم جونہی پاکستان کسٹم کلیئرنگ اور امیگریشن بلڈنگ میں داخل ہوئے وہاں ہمارا استقبال گرمجوشی سے کیا گیا۔ ایک صاحب نے تو آگے بڑھ کر مجھے اور ظفر علی راجا کو یوں گلے لگا لیا جیسے برسوں بعد بچھڑے ہوئے ملے ہوں۔ جپھا ڈالنے والے صاحب نے بتایا تھا کہ ان کا نام رانا محمد اسلم ہے اور وہ ایل ایل بی کے طالبعلمی کے زمانہ میں ہمارے راجا صاحب کے کلاس فیلو رہ چکے ہیں۔ جپھی سے آزاد ہونے کے بعد راجا صاحب نے ان کی طرف بغور دیکھا اور اپنے پرانے طالبعلم ساتھی کو پہچان لیا۔ دوسرے صاحب کا نام محمد سعید جوئیہ تھا۔ آپ دونوں بطور سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ فرائض انجام دے رہے تھے۔ ان دوستوں نے نہ صرف یہ کہ کسٹم کلیئرنگ میں قانونی سہولیات پیدا کیں، پْرتکلف چائے سے تواضع کی بلکہ ہمیں اطلاع دئیے بغیر بھارتی کسٹم حکام کو بھی ہماری آمد سے مطلع کیا۔ اس طرح بھارتی کسٹم حکام نے بھی ہمیں خوش آمدید کہا۔ راجو کمار کی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم نے ان پاکستانی دوستوں کا دل ہی دل میں شکریہ ادا کیا۔ واقعی جو نیکی بتائے بغیر کی جائے اس کا مزا کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اس نیکی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے پاسپورٹوں پر کوئی نذرانہ پیش کئے بغیر منظوری کے ٹھپے لگ گئے۔ ہمارے وفد کے ارکان بھارتی امیگریشن بلڈنگ سے باہر نکلتے ہی بھارتی قلیوں نے ہمیں گھیر لیا۔
سردار صاحبان کی مہربانی
میں نے فوراً ہی اپنے سینئر ساتھی ارشاد چودھری صاحب کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہمارے پورے سفر میں تمام دوستوں کے سامان کے نگ گِن کر قلیوں کے حوالے کریں گے، راستے میں جس ٹرانسپورٹ اور مشترکہ کھانے پینے کی ضرورت ہو گی تمام اخراجات کریں گے اور روزانہ رات کو ہم سب دوست اپنے ذمہ پورے دن کا خرچہ چودھری صاحب کے ساتھ حساب کتاب کرنے کے بعد انہیں ادا کر دیا کریں گے۔ اتنے میں دو سردار صاحبان تقریباً بھاگتے ہوئے ہمارے پاس پہنچے اور ہمیں جی آیاں نوں کہا اور ہمیں بتایا کہ آپ کے امرتسر میں دوست بھوپندر سنگھ سندھو نے انہیں 2گاڑیوں کے ساتھ ہمیں امرتسر لے جانے کے لیے بھیجا ہے۔ چودھری ارشاد نے قلیوں سے گاڑی میں ہمارا سامان لدوایا۔ ہم گاڑیوں میں بیٹھنے لگے تو قریب ہی کھڑے ایک دوسرے سکھ نے اپنا تعارف سردار روبی سنگھ کے نام سے کروایا اور بتایا کہ وہ ”اجیت“ اخبار کا اٹاری میں نمائندہ ہے۔
اس نے اشارہ کر کے فوٹو گرافر کو بلایا جو ذرا فاصلے پر کھڑا تھا، ہم سب کو بھارتی بارڈر والے گیٹ کے قریب بلا کر ہماری تصاویر بنوائیں اور تمام ارکانِ وفد کا مختصر تعارف حاصل کرنے کے بعد اجازت لیتے ہوئے کہا کہ واہگرو نے چاہا تو کل کے اخبار میں آپ کی تصویر اور آمد کی خبر شائع ہو گی۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








